عن أبي بکرؓقال: یارسول الله أراك شِبْتَ؟ قال: شَیَّبتْني ھود وأخواتھا.
(ترمذي، تفسیر واقعة، رقم:۳۲۹۷)
جیسے: عن محمد بن جعفر بن زُبیر عن عبید الله بن عبد الله بن عمرؓ عن ابن عمرؓ قال: سمعت رسول اللهﷺ وھو یسأل عن الماء لیکون في الفلاة من الأرض وما یَنوبه من السَّباع والدواب؟ قال: إذا کان الماء قُلَّتین لم یحمل الخَبَث.۱ (ترمذي، أبواب الطھارة: رقم: ۶۷)
حکم:ضعیف ومردود شمار هوتی هے۔
مُصَحَّف:
وه حدیث مردود هے جس کی سند یا متن کے کسی حرف کے نقطے میں تبدیلی کی وجه سے مخالفت ثقات هوگئی هو، اور اس حرف کے کلمه کے خط کی
۱ مثالِ اول اضطراب فی السند کی هے، یه حدیث ابو اسحاق کے واسطے سے مروی هے اور اس میں تقریبا دس طرح سے اضطراب هے؛ کچھ رُوات اس کو موصولا اور دیگر مرسلا روایت کرتے هیں ، اور اس میں جمع وتطبیق ممکن نهیں ! (تیسیر مسطلح الحدیث: ۱۱۳)
مثالِ ثانی مضطرب فی السند والمتن کی هے۔ اس حدیث کی سند اور متن دونوں میں اضطراب هے؛ بلکه معنی میں بھی اضطراب هے، سند کااضطراب یه هے که اس کا مدار ولید بن کثیر پر هے، کبھی تو وه محمد بن جعفر بن زبیر سے روایت کرتا هے اور کبھی محمد بن عباد بن جعفر سے۔ اس کے بعد بسا اوقات عبید الله بن عمر کو ذکر کرتا هے اور کبھی عبد الله بن عبد الله بن عمر کو۔ متن کا اضطراب یه هے که بعض روایات میں ’’قلتین‘‘ هے، بعض میں ’’قلتین أو ثلاثا‘‘، اور بعض میں ’’أربعة قلة‘‘، نیز بعض روایت مرفوعاً مروی هے اور بعض موقوفاً مروی هے۔ (معارف السنن: ۱؍۲۳۳)
فائده: ثبوتِ اضطراب کے لیے ضروری هے که مختلف روایات درجه میں مساوی هوں اور کوئی قرینهٔ مرجحه بھی نه هو؛ کیوں که قوی اور ضعیف کے درمیان اختلاف معتبر نهیں هے؛ اسی طرح قرینهٔ مرجحه کی صورت میں بھی مرجوح، شاذ یا منکر هوکر ساقط الاعتبار هوجائے گی اور اضطراب مضر نه هوگا۔
(البیان المحقق: ۵۸)