مقدمه
از: حضرت مولانا مفتی اقبال محمد ٹنکاروی صاحب دامت برکاتہم
استاذ حدیث وفقہ ومہتمم دارالعلوم اسلامیہ عربیہ ماٹلی والا
الحمْدُ للہ رَبّ العَالمِیْن، وَالصَّلاةُ وَالسَّلام عَلی سیِّد الأنْبِیَاء والمرْسلِیْن، وَعَلی آلهِ وَصحبِهِ اجمَعِیْن. أمَّا بعْد!
بقول علامہ سید سلیمان ندویؒ اسلامی علوم میں قرآنی علوم اگردل کی حیثیت رکھتے ہیں ، تو علم حدیث شہ رگ کی ،یہ شہ رگ اسلامی علوم کے تمام اعضاء وجوارح تک خون پہنچاکر ہر آن کیلئے تازہ زندگی مہیا کرتی ہے۔ احکام قرآن کی تشریح وتعیین ،اجمال کی تفصیل، عموم کی تخصیص ،مبہم کی تعیین اور آپ ﷺ کے اقوال وافعال اسی مبارک علم کے ذریعہ ہم تک پہنچے ہیں ، لہذا یہ کہنا بالکل بجاہوگا کہ مذہب اسلام کے عملی پیکر کاصحیح مرقع اس علم کی بدولت مسلمانوں میں تاقیامت موجود وقائم رہے گا۔ إن شاءَ اللہ العَزِیْز.
دوں اگر تشبیہ قرآن کو برخسار جمیل
تو اسی رخسار کا تل ہے حدیث مصطفیٰ
گجرات صدیوں تک علم وفن کا مرکز ،ارباب ہنر کا گہوارہ ،ارشاد وتلقین کا سرچشمہ ، اقتصادی زندگی کی شہ رگ ،اردو ادبی شہ پارہ کی اول روایت گاہ، حرمین کے مصارف کیلئے وقف گاہ ،علماء ومشائخ کی گذرگاہ بلکہ سکونت گاہ ،دینی ثقافتی زندگی کا مرکز ثقل ، تہذیب وتمدن کی جلوہ گاہ ،اسلام کے اوّلین قافلہ کی پہلی منزل، اور عرب وہند کے درمیان تعلقات کیلئے سلسلۃ الذہب اور قنطرۃ الوصل تھا۔
فخر ہند حضرت مولانا شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ ابھی اپنی مسند درس بچھابھی نہیں پائے