اخبار آحاد
۱خبر واحد:
وہ حدیث ہے جس میں متواتر كی شرطیں موجود نه هو، قطع نظر اس سے کہ اس کے راوی ایک یا دو یا چند ہوں ، جیسے: ’’عن ابن مسعودؓ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم: لایمنعنَّ أحدکم أذانَ بلال من سُحُورہ؛ فإنه یُؤَذن -أو قال: ینادِي- بلیل لیَرجِع قائمَکم ویُنَبِّه نائمَکم ولیس الفجر أن یقول ھکذا۔ -وجمع یحییٰ کفَّیه- حتی یقول ھکذا. (بخاری، کتاب أخبار الآحاد، برقم: ۷۲۴۷)
حکم: علمِ نظری (ظنی) کا فائدہ دیتی ہے؛ لیکن اگر وہ روایت محتف بالقرائن ہو تو علمِ یقینی نظری کا فائدہ دیتی ہے۔
۲ کسی خبر واحد میں ایسے قرائن موجود ہوں جو مفیدِ علمِ یقینی ہوں تو اس خبرِ واحد سے علمِ یقینی نظری کا فائدہ ہوگا؛ اور وہ اخبار یہ ہیں :
۱ وہ اخبارِ آحاد جن کی شیخین امام بخاری ومسلم نے اپنی صحیحین میں تخریج کی ہو اور حفاظِ حدیث وائمۂ جرح وتعدیل میں سے کسی نے ان پر نقد وجرح نہ کی ہو، اور ان کے مدلول میں باہم ایسا تعارض نہ ہو جس کا ازالہ ناممکن ہو۔
اس قسم کے تین قرائن ہیں : (۱) علمِ حدیث اور نقدِ رجال میں شیخین کی عظمت وجلالتِ شان، (۲) حدیثِ صحیح کو سقیم سے ممتاز کرنے میں ان دونوں کا فائق ہونا، (۳) علماء کا صحیحین کو شرفِ قبولیت سے نوازنا۔