راویوں نے روایت کی هو؛ مگر کسی امام نے اس کی توثیق نه کی هو، اسی مجهول الحال کو ’’مستور الحال‘‘ بھی کهتے هیں ، جیسے: أحمد بن منِیع عن حجاج بن محمد حدثني شعبة عن الحُرّ بن الصَّباح عن عبدالرحمٰن بن الأخْنس عن سعید بن زید عن النبي ﷺ نحوه بمعناه. ھذا حدیث حسن.۱
(ترمذي: کتاب المناقب: رقم: ۳۷۵۷)
حکم: جمهور کے صحیح قول کے مطابق اس کی روایت مردود هے؛ لیکن تحقیقی بات جس پر امام حرمین نے اعتماد کیا هے، اور جس کی طرف حافظ ابن حجر گئے هیں که: اس سلسله میں توقّف کیا جائے گا، اس کی حالت یعنی عدالت اور غیرعدالت کے ظاهر هونے تک، پھر جیسی حالت ظاهر هوگی اس کے مطابق حکم لگایا جائے گا، اس سے پهلے نه مقبول کها جائے گا اور نه مردود۔
۲- مجهول الاسم:
جسے محدثین مبهم کے عنوان سے ذکر کرتے هیں وه راوی جس کے نام کی تصریح نه کی جاوے، جیسے: حجاج بن فُرَافِصَة عن
۱ اس حدیث کے تمام روات ثقه هیں ؛ مگر عبد الرحمٰن بن اخنس مستور الحال هے، جیسا که حافظ ابن حجرؒ نے ’’تقریب التھذیب‘‘ میں ص:۳۳۶ پر فرمایا هے؛ لهٰذا یه حدیث ضعیف هونی چاهیے؛ مگر امام ترمذی نے اس کی تحسین کی هے؛ اس لیے که عبد الله بن ظالم مازنی، ریاح بن حارث اور حمید بن عبد الرحمٰن نے اُن کی متابعت کی هے اور حضرت ابو ھریرهؓ ابن عباسؓ کی حدیثیں اس حدیث کے شواھد بھی هیں ؛ لهٰذا یه حسن لغیرهٖ هے۔
فائده: مجهول الحال کے لیے عام طور سے مستور کالفظ استعمال کیا جاتا هے اور مجهول العین کے لیے مجهول کا لفظ بولا جاتا هے۔ (البیان المحقق: ۹۴)