حکم: قطعاً حرام ہے۔
تہمتِ کذب:
یعنی جھوٹ کا الزام؛ اس طعن کا مطلب یہ ہے کہ: راوی کے متعلق یہ بات تو ثابت نہ ہو کہ اس نے رسول اللہﷺ کی طرف قصداً کوئی جھوٹی بات منسوب کی ہے، مگر کچھ ایسے قرائن پائے جاتے ہوں جن سے کذب فی حدیث الرسولﷺ کی بدگمانی ہوتی ہو؛ ایسی حدیث کو ’’متروک‘‘ کہتے ہیں ، جیسے: صدقة الدَّقِیْقي عن فَرْقَد بن یعقوب عن مُرّۃة بن شراحیل عن أبي بکر الصدیق مرفوعًا: ’’لایدخل الجنة خَبٌّ ولا مَنّان ولا بخیل.۱ (ترمذي، کتاب البر، برقم: ۱۹۶۳)
حکم: ایسی حدیث قبول نہیں کی جائے گی؛ إلا یہ کہ ایسا راوی اپنی اس حرکت سے توبہ کرے۔
فسق:
یعنی بد دین ہونا؛ یہ طعن اس راوی پر لگتا ہے، جو کسی قولی یا فعلی گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے، جیسے: ’’رأیت ربي یوم عرفة بعرفات علیٰ جمل أحمر علیه إزارك‘‘۲.
Ü حالت ایسی ہے جس سے معلوم ہوجائے کہ اس کی حدیث موضوع ہے، مثلاً وہ امراء اور بادشاہوں سے تقرب کا بہت زیادہ خواہاں ہو، وغیرہ، (۳) مروی کی حالت ایسی ہو جس سے معلوم ہوجائے کہ یه بات آپﷺ ہرگز نہیں فرما سکتے، مثلاً: وہ قرآنِ کریم کے معارض ہو، یا سنتِ متواترہ کے خلاف ہو، یا عقلِ صریح کے معارض ہو۔ (تدریب الراوی)
۱ اس میں فرقد اس قسم کا راوی ہے؛ اس لیے یہ روایت متروک ہے۔ (تدریب الراوي)
۲ اس کو ابو علی الاھوازی نے روایت کیا ہے اور وہ احد الکذابین ہے۔ (منھج النقد: ۳۰۳)