مالك قال: صلیت خلف النبيﷺ وأبي بکر وعثمان فکانوا یستفتحون بالحمد للہ رب العٰلمین لایذکرون بسم اللہ الرحمٰن الرحیم في أول قراءة ولا في اٰخرھا. (مسلم، کتاب الصلوٰة، برقم: ۳۹۹)؛ وعن عثمان بن سلیمان عن أبیه أنه سمع النبيﷺ یقرأ في المغرب بالطور‘‘.۱ (معرفة علوم الحدیث: ۱۱۵)
حکم: اگر تحقیق سے راوی کی غلطی کا ظنِ غالب ہوجائے تو حدیث کی عدمِ صحت کا حکم لگایا جاتا ہے، اور اگر ظنِ غالب نہ ہو؛ بلکہ تردد ہو تو توقف کیا جاتا ہے۔
مخالفتِ ثقات:
یعنی ثقہ راوی کی روایت کے خلاف روایت کرنا؛ اس كی پانچ قسمیں هیں ، تفصیل آگے آرہی ہے۔
سوءِ حفظ:
یعنی یاد داشت کی خرابی؛ یہ طعن اس راوی پر لگتا ہے جس
۱ مثالِ اول علت فی المتن کی ہے، اور مثالِ ثانی علت فی السند کی ہے۔
حاشیہ: اکثر لوگ صرف ’’یستفتحون بالحمد للہ رب العٰلمین‘‘ تک روایت کرتے ہیں ؛ چناں چہ متفق علیہ روایت میں صرف وہی جملہ ہے، مگر ولید بن مسلم نے وہم کی وجہ سے ’’لایذکرون بسم اللہ‘‘ کا اضافہ کردیا؛ اس لیے یہ حدیث معلل ہے۔ (مقدمة فتح الملھم: ۵۴)
حاشیہ: امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث تین طرح سے معلول ہے: (۱) عثمان ابو سلیمان کے بیٹے ہیں ، سلیمان کے نہیں ، (۲) عثمان نے اس حدیث کو نافع بن جبیر بن مطعم عن أبیہ کی سند سے روایت کیا ہے، (۳) ابو سلیمان نے آپ کو نہ دیکھا اور نہ آپ سے سنا۔ (معرفۃ علوم الحدیث: ۱۱۵)
ملحوظه: وہم کا علم کیسے ہو؟ وہم کو جاننے کا طریقہ یہ ہے کہ حدیث کی جملہ سندوں کو تلاش کرکے جمع کیا جاوے، پھر دیکھا جاوے کہ جس کی روایت تمام لوگوں کے خلاف ہو اس کی روایت میں وہم ہوگا۔ (تیسیر مصطلح الحدیث: ۱۰۱)