بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
پیش لفظ
الحمد للہ الذي ھدانا للإسلام والصلاة والسلام علیٰ سید الأنام محمد واٰله وصحبه البررۃة الکرام.
اما بعد! ’’حدیث‘‘ قرآن مجید کے بعد دین کا سب سے بڑا مأخذ ہے، جس پر پورے دین کی بناء واساس ہے، مذاہب کی تاریخ میں شاید ایسی کوئی مثال نہ ملے کہ مذہبی پیشوا کے شب وروز، شام وسحر، خلوت وجلوت، سفر وحضر اور زندگی کے هر ایک طریقہ کی اس طرح حفاظت کی گئی ہو، جیسے رسولﷺ کی حیاتِ طیبہ کو حدیث کی صورت میں محفوظ کیا گیا ہے؛ یہ در حقیقت اسلام کے دوام اور پیغمبرِ اسلامﷺ کے دائرہ نبوت کے قیامت تک محیط ہونے کی دلیل ہے۔ اس لیے ہر عہد کے اکابر علماء اور نابغۂ روز گار ہستیوں نے اس فن کی آب یاری میں حصہ لیا ہے، پھر جب اس فن نے ترقی کی تو اس نے متعدد علوم وفنون کو وجود بخشا، ان ہی میں ایک ’’علمِ اصول حدیث‘‘ بھی ہے۔
اس کی بہت سی تعریفات کی گئی ہیں ، علامہ جلال الدین سیوطی نے ایک مختصر تعریف یوں کی ہے: ’’علم أصول الحدیث: ما یبحث فیه عن الراوي والمروي من حیث معرفة المقبول والمردود‘‘؛ علمِ اصولِ حدیث وہ علم ہے جس میں راوی اور مروی کی اس طرح جانچ کی جائے کہ