أحدکم الفجر فلیضطجع عن یمینه‘‘.۱
(ترمذی، باب ماجاء في الاضطجاع بعد رکعتي الفجر، برقم: ۴۲۰)
حکم:مقبول اور درجۂ قبولیت میں روات کے احوال کے مطابق ہوگی۔
شاذ:
وہ حدیث مقبول ہے جس کو ثقہ نے اوثق کے خلاف نقل کیا ہو، اور تطبیق دشوار ہو، جیسے: شاذ فی المتن: حدثنا بِشْر بن معاذ حدثنا عبد الواحد بن زیاد عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي ھریرة مرفوعًا ’’إذا صلی أحدکم الفجر فَلْیَضْطَجِعْ عن یمینه‘‘.
(ترمذی، باب ماجاء في الاضطجاع بعد رکعتي الفجر، برقم: ۴۲۰)
شاذ فی السند: حدثنا سفیان بن عیینة عن عمرو بن دینار عن عوسجة عن ابن عباسؓ أن رجلا تُوُفّي علیٰ عھد رسول اللہ ﷺ لم یَدَعْ وارثًا إلا مولیٰ ھو أعْتَقَه.۲ (ترمذی، کتاب الفرائض، برقم: ۲۱۰۶)
حکم:مردود ہے۔
۱ امام بیہقی فرماتے ہیں کہ: اس میں عبد الواحد نے ایک جمِ غفیر کی روایت کے خلاف اس حدیث کو آپ کے قول میں سے ہونا نقل کیا ہے؛ جب کہ دیگر تمام لوگوں نے اس کو آپ کے فعل میں سے ہونا نقل کیا ہے؛ لہٰذا عبد الواحد کی روایت ’’شاذ‘‘ اور دوسروں کی ’’محفوظ‘‘ ہے۔
(تدریب الراوي ۱۹۶-۱، علوم الحدیث: ۱۹۰)
۲ ابن عیینہ کی طرح ابن جریج وغیرہ نے بھی اسے موصولاً روایت کیا ہے؛ لیکن حماد بن زید سے اسے مرسلاً روایت کیا ہے، اور حماد بن زید معتمد عادل وضابط راوی ہے؛ لیکن چوں کہ اُن کے مقابلہ میں متعدد ثقہ روات نے حضرت ابنِ عباس کا ذکر کیا ہے؛ اس لیے ابو حاتم نے ابن عیینہ کی روایت کو ترجیح دی ہے، ابنِ عیینہ کی روایت محفوظ اور حماد کی شاذ ہے۔ (علوم الحدیث: ۱۸۹، تدریب الراوي: ۱-؍۱۹۶)