معلوم ومشہور ہیں ؛ لیکن مجمع البحار میں اسے اس لئے نقل کیا گیا ہے کہ زیر بحث حدیث میں اس لفظ کی تاویل کسی خاص نوعیت کی ہوتی ہے۔
تذکرة الموضوعات
یہ کتاب بھی اہم اور محققانہ ہے ،جو امام شوکانی اور ملاعلی قاری کی اس فن کی تصنیفات سے ضخامت اور حجم میں زیادہ ہے، یہ ۹۵۸ھ کی تصنیف ہے ، اس میں موضوع حدیثوں کے علاوہ ،ان کے بارے میں محدثین اور نقادین فن کے اقوال بھی اس لئے نقل کئے ہیں تاکہ لوگ احادیث کو موضوع ، ضعیف یا صحیح قرار دینے میں افراط وتفریط کے بجائے احتیاط سے کام لیں ، کیونکہ غالی اور مفرط قسم کے لوگ محض سنی سنائی باتوں کی وجہ سے حدیث کے موضوع ہونے کا فیصلہ کردیتے ہیں اور خود غوروفکر سے کام نہیں لیتے ،اسی لئے شیخ محمد بن طاہر نے اس کے مقدمہ میں متنبہ کیا ہے کہ اگر کوئی مصنف کسی حدیث کو موضوع بتائے تو جب تک دوسرے ذرائع سے اس کی تصدیق وتأیید نہ ہوجائے اس حدیث کو موضوع نہ سمجھا جائے۔
شیح شطاری گجراتی کی ’’ذریعة شرح مشکوة‘‘ اور ’’إمعان النظر في توضیح نزهة النظر‘‘ شیخ ھبۃ اللہ شیرازی کا علم حدیث اور اصول حدیث میں ایک رسالہ، شیخ رحمۃ اللہ کی شیخ علی بن محمد الخطیب کی کتاب تنزیه الشریعة عن الاحادیث الموضوعة کی تلخیص، مولانا عبدالحی رنگونی کی ’’سلعة القربة في شرح نخبة الفکر‘‘، شیخ شاہ میر کا رسالة في علم الحدیث، شیخ بہاء الدین نہروالی کی ’’النهر الجاري علی صحیح البخاري‘‘ ہے، شیخ عمربن عبدالغفور العارف نے اصول حدیث کے موضوع پر ’’الفیض النبوي‘‘ نامی کتاب لکھی ہے،جس میں صحیح البخاری کی فہارس بھی شامل ہے، علاوہ