سی بستی کو جس ذات سے انتساب کا فخر حاصل ہے، و ہ ہندوستان کی پوری اسلامی تاریخ کی ممتاز ترین شخصیتوں اور صاحبِ نسبت بزرگوں میں سے ایک ہیں ، اور جہاں تک اتباعِ سنت، اور بدعات سے نفرت اور عادات و اخلاق، تمدّن و معاشرت، جذبات و اذواق میں آنحضرت ﷺ کی بالارادہ، اور بلا ارادہ پیروی اور تقلید کا معاملہ ہے، اس میں مشائخِ طریقت میں بھی ان کی نظیر ملنی اگر نا ممکن نہیں ، تو مشکل ضرور ہے اور یہ احساس صرف راقم سطور ہی کا نہیں جس کو اس ذات سے جذباتی اور خاندانی تعلق ہے بلکہ اس میں وہ لوگ بھی شریک ہیں جن کی نظر ہندوستان کی دینی اور روحانی تاریخ پر، اور تراجم و تذکرے کی کتابوں پر زیادہ وسیع اور جن کا مطالعہ غیر جانب دارانہ، اور جدید اصطلاح کے مطابق معروضی ہے۔(۱)
نورِ باطنی و ادراکِ صحیح رکھنے والے بزرگوں کے لئے کسی شخص کی عظمت اور اس کے مرتبہ کے معلوم کرنے کا ذریعہ صرف حالات کا مطالعہ اور تذکرے و تاریخ کی ورق گردانی نہیں ، بلکہ قلب کی شہادت اور خود نورِ باطن ہوتا ہے۔ ۱۳۰۸ھ میں جب والد مرحوم مولانا حکیم سید عبد الحی صاحبؒ اویسِ زمانہ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت نے معمول کے مطابق پوچھا، کہ کہاں کے رہنے والے ہو؟ والد صاحب نے عرض کیا کہ رائے بریلی کا رہنے والا ہوں ، فرمایا کہ رائے بریلی میں کہاں رہتے ہو؟ تو انھوں نے عرض کیا کہ تکیہ شاہ علم اللہؒ۔ یہ سُن کر آپ نے عجب انداز سے کروٹ بدل کر فرمایا کہ وہ تو بڑے بزرگ تھے۔ یہ یقین ہے کہ مولانا کو کبھی ان کے حالات سننے یا پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا ہوگا اور نہ اس وقت متداول تذکروں میں ان کے حالات ملتے تھے، اسی طرح اپنے زمانہ کے ممتاز صاحبِ باطن بزرگ اور داعی الی اللہ مولانا محمد الیاس صاحب ۱۹۴۳ء میں اپنی عمر میں پہلی
------------------------------
(۱) مثلاً مولانا غلام رسول مہر مصنف ‘‘سید احمد شہید’’