کتاب کا مقصد
رب اشرح لی صدری، و یسر لی امری، و احلل عقدۃ من لسانی، یفقہوا قولی۔
حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری ؒ نے ایک مرتبہ ایک دلچسپ حکایت بیان فرمائی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ چند آدمی ریل سے سفر کررہے تھے، وقت گزاری کے لئے انھوں نے ایک دوسرے کے حالات دریافت کرنے شروع کیے، موضوع یہ تھا کہ کون کس سے بیعت ہے، سب نے کسی نہ کسی کا نام لیا، قریب ہی ایک صاحب بیٹھے ہوئے تھے، جو گفتگو میں حصہ نہیں لے رہے تھے اور بالکل خاموش تھے، جب سب اپنے اپنے پیروں کا ذکر کرچکے تو ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ صاحب آپ اتنی دیر سے خاموش بیٹھے ہوئے ہیں ، آپ بھی تو بتائیے کہ آپ کا پیر کون ہے؟ ان صاحب نے بڑے اطمینان سے اپنے پیٹ سے کرتہ ہٹایا اور اس پر ہاتھ پھیر کر جواب دیا کہ میرے پیر یہ ہیں ۔
ہماری موجودہ دنیا کے متعلق آج جو بھی کہا جائے اور لکھا جائے اس میں شُبہ نہیں کہ اس کا سب سے بڑا مذہب ’’نفس پرستی‘‘ اور اس کا سب سے بڑا پیر ’’شکم‘‘ ہے اور یہ ایسا بین الاقوامی پیر ہے کہ اس کا حلقۂ ارادت مشرق و مغرب اور عرب و عجم ہر جگہ پھیلا ہوا ہے اور اس کا سکہ ہر ملک میں رواں ہے، اس نے بہت سے چھوٹے چھوٹے پیروں مثلاً قومیت، آمریت، رنگ و نسل اورزبان و وطن کے پجاریوں کو اپنی بساط بچھانے اور اپنا حلقہ بنانے کی اجازت ضرور دے رکھی ہے لیکن اس شرط پر کہ سب اس کے ما تحت بن کر رہیں اور اسی سے’’ کسبِ فیض‘‘ کریں اور ہر فائدہ و آمدنی میں اس کو مقدم رکھیں ۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سوسائٹی کی نظروں سے وہ معیار اوجھل ہوگئے ہیں جو اس ہمہ گیر مذہب اور اس کے سب سے بڑے پادری یا پروہت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتے تھے اور اس کے سارے اثرات (جس کو ہم اپنی نئی زبان میں معیار زندگی کی بلندی، بہتر اقتصادیات، مادی ترقی اور معاشی خوش حالی جیسے خوش نما ناموں سے تعبیر کرتے