(اپنے زمانہ کے بہترین قراء میں ان کا شمار تھا، نہایت فصیح لہجہ اور پرُ سوز آواز تھی، اہل ذوق پر ان کی قرأت سن کر ایک حال طاری ہو جاتا اور عوام پر رقت و گریہ۔)
ان کے حالات کا اختتام مولانا سید نعمان نے ان الفاظ پر کیا ہے:
’’غرض داد درویشی کما ینبغی دادند، و ہر چہ بکاملانِ این طائفہ می بایست بانجام رسانیدند۔‘‘
(ولایت و درویشی کا حق ادا کردیا اور اس سلسلہ کے کاملین کے لئے جو زیبا تھا وہ کردکھایا۔)
حکومت وقت کی طرف سے سید شاہ محمد صابر کو کڑا کے مقامات میں تین گاؤں نذر کئے گئے ، جن کا مصرف مسافرین و فقراء اور طالبین سلوک کی خدمت اور ان کی ضروریات کو پورا کرنا تھا، اس فرمانِ شاہی کی پُشت پر عمدۃ الملک مدار المہام اعتماد الدولہ قمر الدین بہادر جنگ کے دستخط ہیں اور رقبہ وغیرہ تحریر ہے۔
۱۱۶۳ھ میں وفات پائی اور نامور فرزند مولانا سید محمد واضح اور تین صاحبزادیاں یادگار چھوڑیں ، اور تکیہ شاہ علم اللہؒ میں مسجد کے شمال مغربی گوشہ کے قریب سپرد خاک کئے گئے۔
سید محمد احسن بن سید شاہ آیت اللہ
سید محمد احسن نے بڑی وجاہت و ریاست، امانت و دیانت اور زہد و تقوی کے ساتھ زندگی گزاری، دنیا ان کے قدموں پر تھی لیکن ان کا دل اس کی آلودگی سے پاک تھا، والد کی وفات کے بعد جنازہ کے ساتھ وطن رائے بریلی تشریف نہ لائے، بلکہ بادشاہ کے لشکر میں شامل ہوگئے اور تھوڑے ہی عرصہ میں رائے بریلی اور اس کے اطراف ’بیسواڑہ ‘و ’ہتورہ‘ کے علاقے ان کے سپرد کردئے گئے، اس وقت رائے بریلی