پیش لفظ
الحمد ﷲ وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی، أما بعد!
ایک ایسے مبارک تذکرہ کے پیشِ لفظ لکھنے میں مجھے قلبی مسرت و سعادت کا احساس ہورہا ہے، جس کا انتساب ایک ایسی شخصیت سے ہے، جس سے نسبی، روحانی، علمی و ذہنی، گونا گوں رشتے ہیں اور جس کی عقیدت و محبت گویا گھٹی میں پڑی، اور اسی ماحول میں آنکھیں کھولیں اور ہوش سنبھالا۔
غالباً اللہ و رسول کے پاک و مبارک ناموں کے بعد جو نام سب سے پہلے کان میں پڑا، اور عزت و احترام کے ساتھ اس کا نام لیا گیا، وہ حضرت شاہ علم اللہ رحمۃاللہ علیہ کا نام نامی تھا۔ گھروں کے اندر مائیں عزت کے ساتھ ان کا نام لیتیں اور باہر بزرگ اس کا بار بار حوالہ دیتے، اور ان کے قصے سناتے، اس وقت اتنا شعور بھی نہ تھا کہ نام صحیح طور پر ادا ہوسکتا، خوب یاد ہے کہ ہم آپس میں ہمیشہ ’’شالیم اللہ صاحب‘‘ کہتے اور یہ تو عرصہ کے بعد معلوم ہوا کہ صحیح نام علیم اللہ نہیں عَلم اللہ ہے، جو ہم بچوں ، اور کم سواد لوگوں ہی کے لیے نہیں ، خواص اور اچھے پڑھے لکھے لوگوں کے لئے بھی ہندوستان میں ایک نامانوس نام ہے، اور اب بھی اچھے پڑھے لکھے لوگ تحریروں اور پتوں میں علیم اللہ ہی لکھتے ہیں ۔
بچپن میں زیادہ تر ان کے زہد، مجاہدے اور فقرو فاقہ ہی کے قصے سنے تھے، خاندانی کتابوں میں دیکھا کہ پہلے دور میں جب اس خاندان کے بچے جمع ہوتے، اور اس کا تذکرہ ہوتا کہ کس کے گھر میں کیا پکا ہے اور کس نے آج کیا کھایا، تو جس بچے کے