برہمان قناعت فرمودے۔‘‘
ہر کام میں سنت کا خیال
سید شاہ علم اللہؒ کو ہر کام میں سنت کا اس درجہ خیال تھا کہ وہ اس میں سنت کے سارے آداب ملحوظ رکھتے تھے، مثلاً سلام کرنے میں ہمیشہ سبقت کرتے، اس میں چھوٹے بڑے اور مرد و عورت کی کوئی تفریق نہ تھی، جھک کر یا ہاتھ اٹھا کر سلام کرنا، یا تسلیم و آداب سخت نا پسند تھا اور اس سے منع کرتے تھے، سلام کر کے آگے بڑھتے ، کوئی دیوار یا درخت حائل ہوجاتا اور پھر سامنے آتے تو اتباعِ سنت میں دوبارہ سلام کرتے، نمازِ فجر ، نمازِ جمعہ اور نمازِ عیدین کے بعد مصافحہ کو اس بنیاد پر منع فرماتے تھے کہ سنت سے ثابت نہیں ہے۔
لباس و پوشاک میں سنت کی پیروی کرتے تھے، مثلاً روئی والا چوغہ یا قبا جو آنحضرت ﷺ سے ثابت نہیں ہے کبھی نہ پہنتے تھے۔(۱)
مونچھیں رکھنا یا لانبی آستین اور دامن کا کرتہ پہننا جو بعض مشائخ صوفیہ کے ہاں رائج ہے سخت نا پسند تھا اور اس سے منع فرماتے تھے۔
بدعت سے نفرت
بدعت سے اس قدر نفرت تھی کہ اگر یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں شخص بدعت میں مبتلا ہے اس کا منھ دیکھنا اور سلام کا جواب دینا بھی گوارا نہ تھا، ملاقات کرنا یا ہدیہ قبول کرنا تو بہت آگے کی بات ہے، اسی طرح اگر کسی گھر میں میت ہوتی یا شادی اور اس طرح کے موقعوں پر رسوم کا علم ہوتا تو وہاں کسی کی دعوت قبول نہ کرتے اور صاف معذرت کردیتے اور اس میں کسی کی وجاہت یا امارت و ریاست کا مطلق خیال نہ فرماتے۔
’’نتائج الحرمین‘‘ میں ہے کہ ایک روز دلیل خاں جو عہدِ شاہجہانی کے امراء
------------------------------
(۱) اونی رضائی یا چادر کا استعمال کرتے تھے۔