کو اس مسئلہ میں بنیاد نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ شیخ احمد صاحب اس پر کچھ سوچنے لگے، سید شاہ علم اللہؒ نے ان سے پوچھا کہ اس مسئلہ میں آپ کا کیا عمل ہے؟ فرمایا کہ میں خود نہیں سنتا، شاہ صاحب نے دوبارہ سوال کیا کہ آپ کے متعلقین بھی اس سے محترز ہیں یا نہیں ؟ انھوں نے جواب دیا: ’’دست ما بر آنہا نمی رسد‘‘(یعنی ہم کو ان پر قابو نہیں ہے) شاہ علم اللہ صاحبؒ نے ان کو حدیث ’’کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ‘‘ پڑھ کر سنائی اور اسی وقت واپس تشریف لے آئے۔(۱)
شیخ احمد صاحب اپنے تبحرِ علمی اور جلالتِ شان کے باوجود خاموش رہے، اس کے بعد ان کا یہ حال ہوگیا جب کوئی ان کی تعریف کرتا تو فرماتے کہ یہ تعریف تو سید محمد علم اللہؒ کا حق ہے، جو مجھ جیسے عالم سے (جن کی تم اس وقت تعریف کررہے ہو) محض ایک شرعی مسئلہ کے لئے منھ پھیر کر چلے گئے۔‘‘(۲)
ملا باسو سے ایک گفتگو
ایک مرتبہ شاہ علم اللہؒ جائس کی ایک گلی سے گزر رہے تھے، دوسری طرف سے غلام مصطفے اشرفی عرف ملا باسو آرہے تھے، ملا باسو نے شاہ صاحب کو دیکھ کر سلام میں ابتدا کی، ملا باسو زرد پوشاک میں ملبوس تھے، شاہ صاحب نے رنگ دیکھ کر حسبِ معمول ان کے سلام کا جواب نہ دیا اور فرمایا کہ جناب بدعت کے مرتکب ہیں اور حرام لباس پہنے ہوئے ہیں ، ایسے علی الاعلان بدعت کا مظاہرہ کرنے والوں کے سلام کا جواب کس طرح جائز ہوسکتا ہے؟ دوسرے موقع پر جب سید شاہ علم اللہؒ تکیہ پر تشریف رکھتے تھے‘ ملا باسو نے لباس معصفر (رنگین و گیروا لباس) کی اباحت پر بہت سے دلائل جمع کرکے ایک
------------------------------
(۱) و (۲) سیرتِ علمیہ