مقامِ عزیمت
لیکن ایک واقعہ اور ہے جو تاریخ کی سلوٹوں میں اس طرح دب گیا ہے کہ اکثر تذکرہ نگاروں کی نظر اس نہیں پڑسکی، راقمِ سطور کے نزدیک اس میں سید شاہ علم اللہؒ کا ایک بڑا کمال پوشیدہ ہے اور اس سے ان کی سیرت کا ایک اہم پہلو ہماری نظروں کے سامنے آتا ہے۔
خواجہ محمد امین بدخشی جو حضرت سید آدم بنوریؒ کے مجاز و مقرب اور سید شاہ علم اللہؒ کے پیر بھائی اور ان کے از حد مداح و ثناخواں ہیں ،(۱) اور جو سید شاہ علم اللہؒ کی حضرت سید آدمؒ سے بیعت کے وقت نہ صرف موجود تھے؛ بلکہ اس وقت ان کی مجلسوں میں شریک اور معارف و کمالات میں ان کے محرمِ راز تھے، وہ لکھتے ہیں کہ ۱۰۷۵ھ میں میں نے مکہ معظمہ میں ان سے ملاقات کی لیکن انھوں نے اپنے احوال کا کچھ بھی ذکر نہ کیا۔
درحقیقت یہ وہ مقام ہے جہاں بڑوں بڑوں کا قدم پھسل جاتا ہے اور وہ چیز ہے جو اولیاء کے قلوب سے بھی سب کے آخر میں نکلتی ہے۔
خواجہ محمد امین سے ۲۵؍برس کے بعد ملاقات ہوئی ہے، یہ ۲۵؍ برس مجاہدات سے بھرے ہوئے ہیں ، پھر حج کا سفر اور اس کے واقعات، سلام کا واقعہ اور اپنے عجیب غریب معمولات، احوال و کیفیات اور منازل و مقامات کا ایک طویل سلسلہ ہے، ایسے موقع پر آدمی کے منھ سے کچھ نہ کچھ ضرور نکل جاتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب صاحبِ تعلق اور اس کااہل بھی۔
لیکن سید شاہ علم اللہؒ اپنے کمالات و خوارق اور حالات و کیفیات کا ذکر تو کیا کرتے انھوں نے کسی حیثیت سے بھی اپنا ذکر پسند نہیں کیا اور جو قابلِ رشک حالات
------------------------------
(۱) ان کے اقتباسات دوسری جگہ آئیں گے۔