نہ ہوسکے۔
ایک مرتبہ اپنے مکان سے تہجد کے وقت نکل کر مسجد میں آئے اور وضو کے لئے دریا (جو مسجد سے ملا ہوا ہے) پر گئے اور جس طرح آدمی خشکی پر چلتا ہے اسی طرح خراماں خراماں پورے دریا کو پار کرلیا، شیخ سمن نے (جو ان کے اصحاب و اہلِ خانقاہ میں تھے) مسجد میں کسی جگہ موجود تھے یہ منظر دیکھ کر اپنے ساتھیوں سے بیان کیا، شاہ صاحب کو علم ہوا تو بے حد ناراض ہوئے اور چھ مہینے کے لئے ان کو خانقاہ سے باہر کردیا، چھ مہینے گزرنے کے بعد اہلِ تعلق کی سفارش اور اس وعدہ پر کہ آئندہ کسی بات کا اظہار نہ کریں گے اجازت ملی اور حاضرِ خدمت ہوئے۔(۱)
عزیمتِ جہاد اور تنفیذشریعت کا جذبہ
شاہ علم اللہ صاحبؒ کا عہد ہندوستان کی اسلامی حکومت کا عہد اور محی الدین اورنگ زیب عالمگیر کا دورِ حکومت ہے، اس لئے ان کو ان حالات اور اس ماحول کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جس سے ان کے خاندان کے ایک نامور فرد مجاہد کبیر سید احمد شہیدؒ کا سابقہ پڑا لیکن ان کے دل میں کفر و شرک کے مراکز کو نیست و نابود کرنے، اسلام کی سربلندی اور احکامِ شریعت کی تنفیذ کا جذبہ موجزن تھا اور بعض بعض مواقع پر انھوں نے محدود دائرہ میں اس پر عمل بھی کیا، یا اپنے مریدین و اہلِ تعلق کو اس پر مامور کیا، اس اجمال کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ، ورنہ اس کی بعض تفصیلات پیش کی جاتیں ، البتہ ’’قتل مرتد‘‘ کے سلسلہ میں ان کا ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے جس سے ان کی غیرتِ ایمانی، عزیمت، احکامِ الٰہی کی تنفیذ کا شوق اور اس سعادت میں شریک ہونے کی خواہش کا اندازہ ہوتا ہے اور ان کا یہ پہلو بھی سامنے آتا ہے جو سید احمد شہیدؒ کی زندگی میں بہت نمایاں اور ان کی سیرت کا مرکزی پہلو ہے۔
------------------------------
(۱) سیرتِ علمیہ