تسلیم و رضا
سید شاہ علم اللہؒ کی زندگی میں عزیمت اور استقامت کی جو شان پائی جاتی تھی اس کا ایک بہت بڑا مظاہرہ ان کے محبوب فرزند سید ابو حنیفہ کے انتقال کے وقت ہوا، سید ابو حنیفہ نے ۳۲؍ سال کی عمر میں انتقال کیا لیکن گھر سے کوئی آواز بھی ایسی نہیں سنی گئی جس سے اس واقعہ کا علم ہوتا، اہلِ خانقاہ کو کانوں کان خبر نہ ہوئی، شاہ صاحب نے صبح کی نماز سب کے ساتھ پڑھی، نماز کے بعد خلافِ معمول مصلے سے اٹھ کر دروازے تک آئے اور خدّام خاص میں سے ایک کو بُلاکر فرمایا، رات میاں ابو حنیفہ کا انتقال ہوگیا، تجہیز و تکفین کا انتظام کرنا چاہئے، اسی دن دفن کرنے کے بعد متوجہ ہو کر فرمایا، الحمد للہ میاں ابو حنیفہ اس دنیاسے دولتِ ایمان کے ساتھ گئے۔
ایک ضعیفہ روزانہ چرخہ چلایا کرتی تھیں ، گھر تشریف لے گئے، فرمایا آج چرخہ کیوں بند ہے؟ ان بڑی بی نے عرض کیا: حضرت! ایسا لائق و جوان بیٹا دنیا سے اٹھ جائے اس کے غم میں چرخہ بھی بند نہ کریں ، فرمایا یہ سب قضا و قدر کی باتیں ہیں ، اللہ کے حکم میں کسی کو دم مارنے کا چارہ نہیں ، زندگی مستعار ہے، راضی برضا رہنا چاہئے، تم اپنا کام بند مت کرو۔(۱)
استغنا و بے نیازی
سید شاہ علم اللہ ؒ نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی جاگیر یا روزینہ قبول نہ کیا اور باوجود اس کے کہ اکثر مشائخ و اصحاب ِ خانقاہ اورنگ زیب کی علم دوستی و قدر دانی سے حظ وافر حاصل کر رہے تھے، اور ان کے پر خلوص اور گرانقدر عطیات خانقاہ کے مقیمین نیز مہمانوں اور علاقہ کے حاجتمندوں کے لئے بڑی سہولت و کشائش کا باعث تھے، اور اس سے معاشی و مالی حیثیت سے بڑی مدد ملتی تھی، انھوں نے اس کو اپنے لئے یا اپنے
------------------------------
(۱) سیرت سید احمد شہیدؒ از مولانا سید ابو الحسن علی ندوی