’’تذکرۃ الابرار‘‘ میں ہے کہ سید شاہ علم اللہؒ کی بہت آرزو تھی کہ ان کی عمر حضور ﷺکی عمر سے متجاوز نہ ہو، اور آخری وقت یہ سعادت بھی ان کو حاصل ہو، چنانچہ ۹؍ذی الحجہ ۱۰۹۶ھ کو ۶۳؍سال کی عمر میں وفات پاکر حیاتِ جاوِدانی حاصل کی، اور اللہ کا یہ بندہ جس نے زندگی بھرسنت، عزیمت اور مجاہدہ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور کسی سنت، مستحب اور اولی سے منہ نہ موڑا، اپنے ’’محبوبِ حقیقی‘‘ سے جا ملا ؎
چیست ازاں خوب تر در ہمہ آفاق کار
دوست رسد نزد دوست یار بہ نزدیک یار
اورنگ زیب کا خواب
اورنگ زیب عالم گیر نے اسی تاریخ کو یہ خواب دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی ہے، اور فرشتے جنازہ مبارک کو آسمان کی طرف لئے جارہے ہیں ، بادشاہ کو بہت تردد پیدا ہوا اور اس نے علماء صلحاء سے اس کی تعبیر معلوم کرنی چاہی، انھوں نے کہا کہ اس خواب سے معلوم ہوتا ہے کہ اس رات کو سید محمد علم اللہؒ (جو اتباعِ سنت میں رسول اللہ ﷺ کے قدم بہ قدم ہیں ) کا انتقال ہوگیا ہے، بادشاہ نے حکم دیا کہ یہ تاریخ لکھ لی جائے ، اس کے بعد ہی وقائع نگار نے اطلاع دی کہ سید شاہ علم اللہ کا اسی شب کو انتقال ہوا۔
اورنگ زیب نے بعد میں دریافت کیا کہ یہ خواب سنتے ہی یہ تعبیر ان کے ذہن میں کیسے آئی؟
انھوں نے جواب دیا کہ اتباعِ سنت میں کوئی دوسرا آدمی ان کا ہمسر نہیں ، شرف فرزندی کے ساتھ اتباعِ سنت و عشقِ رسول ﷺ کی دولت اور سنن و مستحبات کے اس درجہ اہتمام و التزام میں وہ اکثر علماء و مشائخ سے فائق نظر آتے ہیں ۔(۱)
------------------------------
(۱) تذکرۃ الابرار و بحرِ زخار وغیرہ، در المعارف ملفوظات حضرت شاہ غلام علیؒ میں اس کا تذکرہ موجود ہے۔