آگاہی و بے قراری
وہ کہتے ہیں کہ وصول الی اللہ کے راستہ میں جو بے آرامی و بے قراری نظر آتی ہے وہ خود بہت بڑی دولت ہے اور حفاظت کے قابل ہے، عبد یت اور محبت کا تقاضا یہی ہے کہ اس درد کو سینہ سے لگایا جائے اور اس کو خدا کی بہت بڑی عنایت اور نعمت سمجھا جائے۔
’’روح ذکر آنست کہ آگاہ بحق سبحانہ باشد، ایں آگاہی است کہ دل را بخود آرام دہد و از غیر خود متعرض گرداند …کمال سعادت جز ایں نیست کہ او را حق سبحانہ و تعالی بخود مشغول گرداند ہر چہ شوداز سخن بہتر باشد کہ او گرفتارِ آنحضرت شد جل شانہ ’’لیس للإنسان إلا ما سعی۔‘‘ آنچہ مطلوب است بے آرامی بیش نیست و نالیدن از درد و فرقت … چوں بے قراری وبے آرامی در تو ظاہر شد با کمال بندگی مستحق شدی، اگر عنایت فرمودہ بشرف یافت می شود و حصول رسانند آں کار خدواند است جل ذکرہ۔
(ذکر کی روح یہ ہے کہ حق سبحانہ کی آگاہی نصیب ہو، اور آگاہی یہی ہے کہ وہ دل کو اپنے ساتھ آرام دیتا ہے اور اپنے غیر سے ہٹادیتا ہے … کمالِ سعادت بس یہی ہے کہ اللہ تعالی اس کو اپنے ساتھ مشغول بنالے، اور اپنے کاموں میں لگائے رکھے خواہ کچھ بھی ہو، اس سے بہتر بات کیا ہوسکتی ہے کہ وہ اللہ تعالی کا گرفتار ہے: لیس للإنسان إلا ما سعی، جو کچھ مطلوب ہے وہ بے آرامی اور درد و فرقت کے ساتھ گریہ و زاری کے سوا کچھ نہیں … یہ بے قراری و بے آرامی اس کی علامت ہے کہ کمالِ بندگی