زبان سے یہ الفاظ نکلے:’’از چنیں حکمِ شرع (نعوذ باللہ) بیزارم‘‘، قاضی سید احمد اس بات کی تاب نہ لاسکے اور منصبِ قضا کو خیر باد کہہ کر نصیر آباد چھوڑدیا اور رائے بریلی آکر محلہ سید راجع میں قیام پذیر ہوئے اور پھر دوبارہ نصیر آباد میں قدم نہ رکھا، وہ فرماتے تھے کہ جس آبادی میں حکمِ شریعت سے بیزاری کا اظہار کیا گیا ہو وہاں مؤمن کے لئے ٹھہرنا زیبا نہیں ،(۱) اس واقعہ کے تین سال بعد ۹۳۵ھ میں انتقال فرمایا اور وہیں مدفون ہوئے۔(۲)
ان کے فرزند سید محمد معظم نے دو نامور فرزند چھوڑے؛ سید محمد فضیل و سید محمداسحق۔
سید محمد فضیل
سید محمد فضیل زہد و تقوی، تعلق مع اللہ اور علومِ ظاہری و باطنی میں ممتاز اور عزیمت و استقامت میں بلند پایہ رکھتے تھے۔ ’’تذکرۃ الابرار‘‘ کے الفاظ ہیں :
’’سید محمد فضیل صاحب حالات عالیہ و مقامات متعالیہ بودند و از علوم ظاہر ی و باطنی و زہد و ریاضت بہرہ ور در علم و عرفان کامل بود۔‘‘
ان کی ساری زندگی دوسروں کی خدمت، بیواؤں ، یتیموں کی اعانت اور صلہ رحمی و حسنِ سلوک میں گزری، ان تمام فضائل اور اس علمی مرتبہ اور کمالات و اوصاف کے باوجود وہ روزانہ اپنے دوستوں اور عزیزوں کے گھر جا کر پوچھتے تھے کہ اگر کسی کو ضرورت ہو تو مجھ سے بتادے، بیواؤں کے لئے بازار سے سامان خرید کر، بعض وقت لکڑیاں اپنے سر پر رکھ کر ان کے گھر پہنچادیتے تھے، اور اس پر خوش ہوتے تھے، اس خدمت و قربانی کے ساتھ تدریس کا سلسلہ، مریدین و اہلِ تعلق کی تربیت و دینی رہنمائی اور مجاہدات و ریاضات کا سلسلہ بھی جاری رہتا، اور دن رات کا کوئی وقت ضائع نہ ہوتا۔
------------------------------
(۱) سید احمد شہید از غلام رسول مہر (۲) تذکرۃ الابرار