جب نماز سے فارغ ہوئے اور وہ بزرگ نماز کے لئے مسجد میں نہیں آئے تو سید شاہ علم اللہؒ نے ان سے ملنے کا ارادہ ترک کردیا اور اپنی قیام گاہ کی طرف واپس ہونے لگے، ان کے خدام و معتقدین سامنے آگئے اور کہنے لگے کہ ان سے ملاقات کرلیں ، سید شاہ علم اللہؒ نے جواب دیا کہ وہ نماز کے لئے نہیں آئے اور فرضِ قطعی کو بلا عذرِ شرعی ترک کر کے گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں ایسے آدمی کا منھ دیکھنا نا مناسب اور ملاقات کرنا غلطی ہوگی۔‘‘(۱)
کمالِ ورع واحتیاط
سید شاہ علم اللہؒ کے زہد و تقوی اور کمالِ ورع و احتیاط کے واقعات اعلی درجہ کی عزیمت کے آئینہ دار ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی چھوٹے سے چھوٹے مسئلہ میں بھی عزیمت، اعتدال و توازن اور اتباعِ سنت کا دامن ان کے ہاتھ سے چھوٹنے نہیں پایا، ہدایا کے قبول کرنے میں ان کی شرطیں پہلے گذر چکی ہیں ، اس بات کا ذکر کرنا رہ گیا کہ مقروض یا اس آدمی کا جو غریب ہو، اور اہل و عیال رکھتا ہو‘ ہدیہ قبول نہیں کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ قرض کی ادائیگی اور ذوی الارحام کے حقوق واجب ہیں اور ہدیہ پیش کرنا نفل ہے، جب حقوق پورے ہوجائیں تو نفل کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔(۲)
شاہ صاحب کے ایک معتقد پیر خاں لوہانی پوری بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں آم کی فصل میں کچھ آم لے کرحاضرِ خدمت ہوا، سید شاہ علم اللہؒ نے فرمایا کہ یہ چیز تمھارے اور تمھارے بھائیوں کے درمیان مشترک ہے، بغیر تقسیم کے تم اس کو لائے ہو، اس لئے قبول کرنے سے معذور ہوں ، انھوں نے عرض کیا کہ ہم لوگوں نے با ہم مشورہ اور رضامندی سے باری مقرر کرلی ہے، آج میری باری ہے اور یہ سب آم میرے ہیں آپ تردد نہ فرمائیں ، ان کی عمر بہت کم تھی، شاہ علم اللہ صاحبؒ نے فرمایا کہ
------------------------------
(۱) و (۲) سیرتِ علمیہ