شیخ عبد الرحمن جو سید شاہ علم اللہؒ کے خواص میں تھے کہتے ہیں کہ میں نے خود دیکھا کہ ’’شاہ صاحب کلہاڑی وغیرہ لے کر اپنے گھر سے نکلے، کچھ دوست ساتھ تھے، جنگل گئے، سب نے مل کر لکڑیاں کاٹیں ، سب نے اپنے سر پر لاد ا اور خانقاہ واپس آئے۔‘‘(۱)
سید شاہ علم اللہؒ کا دسترخوان
سید شاہ علم اللہؒ کے دسترخوان کی مساوات کا ذکر ایک جگہ گزر چکا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس کی تفصیلات حیرت انگیز ہیں اور ان سے اس احتیاط و عزیمت اور اتباعِ سنت کا اندازہ ہوتا ہے جس سے شاہ صاحب آراستہ تھے۔
کھانے میں خاص و عام، بڑے چھوٹے یا گھر اور باہر کی کوئی تفریق نہ تھی، بلکہ ایک ہی کھانا اہل و عیال اور مہمان دونوں کے لیے پکتا تھا، اس کے لیے ایک پیمانہ مقرر تھا، جس سے ہر شخص کی خوراک کا بآسانی اندازہ ہوجاتا تھا اور کمی بیشی کا اندیشہ نہ رہتا تھا، احتیاط و مساوات کی حد یہ تھی کہ اگر کبھی پھل وغیرہ آجاتے اور وہ اتنے نہ ہوتے کہ سب میں برابر تقسیم کیے جاسکیں تو ان کا عرق نچوڑ کر سالن میں ڈال دیتے، تاکہ سب کو اس کا حصہ پہنچ جائے، اگر تربوز یا خربوزے آتے تو ان کو بِلا کاٹے ہوئے تقسیم نہ کرتے تھے ، اس لیے کہ کسی کے حصہ میں صرف میٹھے آجائیں اور کسی کے حصہ میں صرف پھیکے، بلکہ ہر پھل کاٹ کر ایک بچہ کو چکھاتے تھے اور اس کے کہنے کے مطابق میٹھے پھل الگ اور پھیکے علیحدہ رکھ دیے جاتے تھے، پھر برابر تول کر سب بھائیوں ، عزیزوں اور اہلِ تعلق کو تقسیم کیے جاتے(۲)، جن ماؤں کے شیر خوار بچے ہوتے تھے ان کو عام طور پرخشک رسد دے دیتے تھے تا کہ اپنی ضرورت کے مطابق استعمال میں لاسکیں اور کسی دشواری میں نہ پڑیں ، البتہ فاقہ کے دنوں میں (جس کا اتفاق بہت ہوتا تھا) پکا
------------------------------
(۱) سیرتِ علمیہ (۲) تذکرۃ الابرار و سیرتِ علمیہ و دیگر مآخذ