مشرق ایک گاؤں ہے) نے جو سید شاہ علم اللہؒ کے معتقد تھے پختہ دس بیگھہ زمین سید شاہ علم اللہؒ کو نذر کی اور یہی زمین آگے چل کر ’’دائرہ شاہ علم اللہؒ‘‘ یا ’’تکیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی، ۱۰۵۰ھ میں مٹی اور پھوس کا ایک مکان جس کو جھونپڑا کہنا زیادہ صحیح ہوگا اور مٹی ہی کی ایک مسجد شاہ عبدالشکور کی بتائی ہوئی جگہ پرلبِ دریا تیار ہوگئی۔
’’بحرِ زخار‘‘ میں ہے کہ اہلیہ کو تشویش ہوئی کہ اس ویران اور بے آباد جگہ میں سانپوں اور بھیڑیوں کی کثرت ہوگی، خدا نخواستہ بچوں کو کوئی گزند نہ پہنچ جائے، فرمایاکہ : اس معاملہ میں ‘ میں نے جناب الہی میں دعا کی ہے اور وہ مستجاب ہوئی ہے۔
عسرت کی زندگی اور مجاہدات شاقہ
۱۰۵۰ھ سے لے کر ۱۰۷۵ھ تک ۲۵؍ سال کا یہ عرصہ سخت عسرت، مجاہدات، نفس کشی اور فقر و فاقہ میں گزارا، لیکن شاہی دربا ر کی رنگینیاں دیکھے ہوئے اور عین آغازِ شباب میں شاہجہاں کے غیر معمولی انعامات و تحائف اور دربار کے تزک و احتشام کا نظارہ کیے ہوئے اس عاشقِ رسول، متبعِ سنت اور صاحبِ عزیمت بندہ کے پائے استقامت میں کبھی کوئی لغزش نظر نہیں آئی اور کسی معافی کو قبول کرنے، کسی جاگیر اور روزینہ کو منظور کرنے یا کسی دولت مند معتقد سے ’’ربطِ خاص‘‘ قائم کرنے کا کوئی سُراغ نہیں ملا۔ در حقیقت یہ اس اتباع اور عزیمت اور اس قربانی اور خلوص کی برکت تھی جس کا مظاہرہ دربار چھوڑتے وقت، لشکرگاہ میں دو سال گزارتے وقت اور نصیر آباد سے ہجرت کرتے وقت ہوا تھا اور جس نے ان سے کہلوایا تھا کہ : ’’ایک دل میں دو چیزوں کی محبت جمع نہیں ہوسکتی‘‘ ؎
یا خانہ جائے رخت بود یا سرائے دوست
اس ضمن کے دوسرے واقعات اور حالات کا ذکر اپنے موقع پر کیا جائے گا۔ جہاں تک ان کی مجاہدانہ اور فقیرانہ زندگی کا تعلق ہے اس کی وقیع اور معتبر شہادت