زندگی کا روشن ترین باب اور ہماری تاریخ کا ایک تابناک صفحہ ہے جس کو کوئی تذکرہ نگاریا مؤرخ نظر انداز نہیں کرسکتا۔
خدمت و مساوات
سید شاہ علم اللہؒ میں خدمت کا یہ جذبہ بچپن سے موجود تھا، وہ کسی کی خدمت قبول کرنے کے بجائے خود اس کی خدمت پر کمر بستہ رہتے تھے، یہ جذبہ ان کی زندگی کے آخری ایام تک نہ صرف کار فرما رہا؛ بلکہ مرورِ ایام کے ساتھ اور زیادہ طاقت ور ہوتا گیا۔
مصنف ’’سیرتِ علمیہ‘‘ لکھتے ہیں :
’’وہ جھاڑو دینے، پانی بھرنے اور کھانا پکانے میں خادمانِ خانہ کے ساتھ شریک ہوتے تھے، کام آسان ہو یا مشکل، نہ کسی کی مدد طلب کرتے تھے اور نہ کسی سے کام کرواتے تھے؛ بلکہ خود کام شروع کردیتے تھے، دوست و اہلِ تعلق یہ دیکھ کر ان کا ہاتھ بٹاتے اور ان کے کام میں شریک ہوجاتے، چنانچہ تعمیرِ مسجد میں انھوں نے پورا حصہ لیا، اس کے لیے زمین کھود کر روڑی نکالتے اورمعماروں کے ساتھ کام میں شریک رہتے۔‘‘
ایک مرتبہ ایک سیلاب کے بعد ایک مخلص نے حویلی کی کرسی بلند کرنے کے لیے پانچ سو روپیہ بھیجے، آپ نے صاحبزادوں اور ساتھیوں سے فرمایا یہ رقم آئی ہے ، چاہے مرزدوروں سے کام لیا جائے اور ان کو مزدوری دی جائے، چاہے تم خود محنت کرو اور مزدوری لے لو، سب نے اسی کو منظور کیا۔ سید شاہ علم اللہؒ بہ نفسِ نفیس اپنے فرزندوں کے ساتھ پھاوڑا چلانے، زمین برابر کرنے، اور سطح بلند کرنے میں شریک ہوئے اور دن بھر محنت کرتے رہے۔(۱)
------------------------------
(۱) سیرت سید احمد شہید، از مولانا ابو الحسن علی ندوی۔