گے اور قدرتی طور پر اس قسم کی چیزوں سے واسطہ پڑتا ہوگا، اس لیے اس پر شدید انقباض اور تابِ سماعت نہ لانا کچھ بعید نہیں ، سید شاہ علم اللہؒ کے سلسلہ میں ہمیں کوئی متعین چیز نہیں ملتی جس سے اس مسئلہ پر روشنی پڑسکے، البتہ وقائع احمدی میں اس کی طرف کچھ اشارہ ضرور ملتا ہے، اس میں یہ صراحت موجود ہے کہ شاہ علم اللہؒ اکثر بہ سبب فساد و جھگڑے برادری کے برخاستہ خاطر اور مکدّر طبیعت رہا کرتے تھے اور اکثر قصد ہجرت کا کیا کرتے تھے۔(۱)
’’وقائعِ احمدی‘‘ میں ہے کہ حضرت سید آدم بنوریؒ سے شاہ صاحب نے ان ہی منازعات کا حوالہ دیا اور اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کی اجازت چاہی، حضرت سید آدم بنوریؒ بھی ہجرت کے ارادہ سے چلے تھے اس لئے اس ارادہ کو اور تقویت ہوئی ہوگی، حضرت سیدؒ نے فرمایا جاسکتے ہو لیکن اگر کوئی مردِ خدا تمھیں روکے تو ٹھہر جانا۔(۲)
نصیر آباد واپسی اور سفر کی تیاری
نصیرآباد واپس ہوئے اور قصبہ کے اندر جانے کے بجائے قصبہ کے مضافات میں ٹھہرگئے اور اپنی اہلیہ کو یہ پیغام بھیجا کہ میں نے اللہ تعالی کو راضی کرنے کے لئے دنیا ومافیہا سے کنارہ کشی کا فیصلہ کرلیا ہے، اگر تمھیں ساتھ رہنا منظور ہو تو اسباب دنیوی سے منھ پھیر کر اللہ تعالی کی طرف اپنا رُخ سیدھا کرلو، اور میرے ساتھ آؤ۔(۳)
’’بحرِ زخار‘‘ میں اتنا اضافہ ہے کہ انھوں نے اپنی اہلیہ سے یہ بھی فرمایا کہ: ’’اگر مقدور رفاقت من داری از خویش و قبیلہ درگذر وکنیزکان را براہِ خدا آزاد کن۔‘‘ (یعنی اپنے نفس اور خاندان ان دونوں سے دست کش ہوجاؤ اور خادموں کو خدا کے راستہ میں رخصت کردو) اہلیہ نے یہ پیغام سن کر اتنا کہا کہ اور ساری باتیں مجھے بسر و
------------------------------
(۱) وقائع احمدی، جلد اول، ص: ۱
(۲) وقائعِ احمدی و سیرت سید احمد شہیدؒ و دیگر مآخذ
(۳) تذکرۃ الابرار