خاندان کے لئے حتی کہ اپنے اہلِ تعلق کے لئے بھی کبھی گوارا نہ کیا، اور جس طرح متاعِ دنیا سے دامن جھاڑ کر نصیرآباد سے رائے بریلی آئے تھے اسی شان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
ایک واقعہ سے جس کا ذکر آگے آئے گا یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اورنگ زیب کے اصرار اور خواہش اور ان کی مسلسل معذرت کی وجہ سے اورنگ زیب ان سے مایوس ہوگیا تھا اور اس کو یقین ہوگیا تھا کہ ان سے اس سلسلہ میں کچھ زیادہ کہنا بے کار ہے۔
’’نتائج الحرمین‘‘ میں ہے کہ ایک مرتبہ میر عثمان شاہجہاں پوری نے شیخ سلطان ساکن بلیا (۱)اور شاہ علم اللہؒ کی تنگی کے بارہ میں (جو ان کے پیر بھائی تھے) عالم گیر کو رقعہ لکھا، عالم گیر نے شیخ سلطان کی خانقاہ کے لئے فوراً روزینہ مقرر کردیا، لیکن اسے معلوم تھا کہ شاہ علم اللہؒ روزینہ قبول نہیں کریں گے، اس لئے حکم دے دیا کہ جس مال سے خود ہمارے کھانے کا انتظام ہوتا ہے اس میں سے سو روپیہ بطورِ نذر شاہ صاحب کے ہاں پہنچادئے جائیں ، شاہ صاحب کو معلوم تھا کہ نذر وجہِ حلال سے آئی ہے اور نذر کرنے والا وہ سلطان ہے جس سے بڑھ کر صاحبِ تقوی سلطان کم از کم ہندوستان کے تخت پر نہیں بیٹھا بایں ہمہ نذر لوٹادی۔(۲)
آخری ایام
گزشتہ صفحات میں بار بار اس کا ذکر آچکا ہے کہ سید شاہ علم اللہؒ بدعت کے معاملہ میں کس قدر ذکی الحس اور باریک بیں تھے، آخری ایام میں اس بات نے اتنی شدت اختیار کی کہ وقت کا بیشتر حصہ بلکہ سارا وقت مسجد اور گھر کے درمیان ہی گزرنے لگا، اور عمومی ملاقاتوں اور مجلسوں سے عملاً کنارہ کشی اختیار کرلی۔ شاہ صاحب کے
------------------------------
(۱) یہ بلیا بہار میں مونگیر کے قریب دریا پار ہے، اب اس کا مشہور نام ‘‘لکھمنیا’’ ہے جو بیگو سرائے کے قریب ہے۔ حضرت شیخ سلطان کا مزار مسجد کے قریب موجود ہے، ان کا خاندان اسی قصبہ میں مقیم ہے۔
(۲) سید احمد شہیدؒ مؤلفہ غلام رسول، ص: ۲۴ بحوالہ نتائج الحرمین۔