ان مسائل پر قلم اُٹھایا گیا ہے جن کے متعلق کیا عوام کیا خواص سب کا اس وقت ایک ہی اندازِ فکر تھا اور مجدد صاحب اور ان کے نامور فرزندوں کے سوا بظاہر کوئی ایسا سلسلہ و خاندان نہ تھا جہاں اتباعِ سنت کی اس قوت کے ساتھ دعوت ہو اور اس کا اس درجہ اہتمام ہو اور اس میں اتنی نزاکت اور لطافت برتی گئی ہو جتنی سید شاہ علم اللہؒ اور ان کے اہلِ خاندان اور اہلِ سلسلہ میں ۔
یہ وہی رسالہ ہے جو سید شاہ علم اللہؒ صاحب کے فرزند سید محمدؒ آخری ایام میں ملنے کے لئے آنے والوں کو دکھاتے یا سُناتے تھے، اور اگر ان کو اس کے ان مذکورہ بالا مضامین سے اتفاق ہوتا تو ملنے کی اجازت دیتے تھے۔
دوسرا رسالہ عطیات ہے جو والد ماجد مولانا حکیم ڈاکٹر سید عبد العلی حسنیؒ نے ۱۹۲۸ء میں طبع بھی کروایا تھا، لیکن اس کے مضامین زیادہ تر احاطہ ذاتی و صفاتی کے بیان میں ہیں اور عام طور پر اس سے استفادہ بہت مشکل ہے۔
سید شاہ علم اللہ کا اصل کارنامہ
سید شاہ علم اللہؒ کاکمال نہ ان مجاہدات شاقہ میں مضمر ہے جو ان کی پوری زندگی میں یکسانیت کے ساتھ نظر آتے ہیں ، نہ ان کی حق گوئی و بے خوفی میں ، نہ روحانی کمالات اور خوارق و کرامات میں ، نہ ان کے معارف وارشادات اور رسائل و تصنیفات میں ، نہ ان کے جلیل القدر خلفاء اور با کمال فرزندوں میں ، یہ تمام شعبے ان کی سیرت میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں اور ان کے لئے جن کے دل بے کل ہیں اور کوئی نادیدہ اور مبارک خلش ان کو برابر بے چین رکھتی ہے، ان شعبوں میں بھی اصلاحِ حال، تعمیر سیرت اور رجوع الی اللہ کا وافر سامان موجود ہے، لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ اور کمال اور ان کی مابہ الامتیاز خصوصیت جو ان کی کتابِ زندگی کا سب سے جلی عنوان بن سکتی ہے۔