بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
عرض ناشر
جن کتابوں نے ابتداء ہی میں راقم سطور پر اثر ڈالا ان میں ’’تذکرہ حضرت شاہ علم اللہ حسنیؒ‘‘ ممتاز کتابوں میں ہے، شاید کچھ وجہ یہ بھی ہوگی کہ وہ خاندان کے بزرگ کا ذکر تھا اور کتاب کے مصنف راقم کے والد ماجد مولانا سید محمد الحسنی رحمۃ اللہ علیہ تھے، جنھوں نے بہت کم عمر پائی اور زندگی کی صرف چوالیس بہاریں دیکھیں ، والد مرحوم کی وفات کے وقت راقم کی عمر ۹-۱۰؍تھی، والدہ صاحبہ مرحومہ کو اس کا بڑا اہتمام تھا کہ میں والد صاحب کے ایصال ثواب کا اہتمام کیا کروں اور ان کی کتابوں کا مطالعہ رکھوں ، یہی وجہ رہی ہوگی کہ میں نے بڑے شوق سے اس کتاب کا مطالعہ کیا، اور اس چھوٹی سی عمر میں اس کتاب نے بڑا اثر کیا۔
حضرت شاہ صاحبؒ کی حیات مبارکہ پر مختلف زبانوں میں خاندان کے بزرگوں نے کام کیا جن میں حضرت سید صاحبؒ کے چچا مولانا سید محمد نعمان صاحب اور حضرت مولاناؒ کے جو بزرگوار مولانا حکیم سید فخرالدین خیالیؔ کی کتابیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں ، لیکن فارسی میں ہونے کی وجہ سے ان سے استفادہ عام طور پر ممکن نہ تھا، والد صاحبؒ نے اس کو محسوس کیا اور بڑے ذوق و شوق سے سعادت سمجھ کر یہ کتاب تصنیف فرمائی اور اپنے عم محترم حضرت مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندوی کی خدمت میں پیش کی، حضرت مولاناؒ نے کتاب بہت پسند فرمائی اور اس پر بڑا مؤثر مقدمہ بھی تحریر فرمایا، مولانا محمد ثانی حسنی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات سراپا شفقت و محبت تھی، ان کو اپنے بھائیوں سے بے حد محبت تھی، والد صاحب مرحوم ان کے ماموں زاد بھائی تھے، مگر بالکل سگے بھائیوں کی طرح تھے، انھوں نے کتاب اپنے ’’مکتبۂ اسلام‘‘ سے بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کی، اور اس کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔
عرصہ سے اس کا دوسرا ایڈیشن بھی ناپید تھا اور ازسر نو اس کی اشاعت کی ضرورت محسوس ہورہی تھی، اس حقیر کے لیے یہ بات سراپا سعادت ہے کہ اس کو اشاعت کی توفیق ملی، اب نئی کمپوزنگ اور تصحیح کے ساتھ کتاب ناظرین کے سامنے ہے۔
میں ذاتی طور پر ان تمام عزیزوں اور دوستوں کا مشکور ہوں جنھوں نے کتاب کی اشاعت میں کسی بھی حیثیت سے حصہ لیا، اللہ تعالیٰ سب کو اجر عطا فرمائے، اور کتاب مقبول عام فرمائے۔
جمعۃ المبارک ۲؍صفر۱۴۳۰ھ بلال عبدالحی حسنی ندوی