لغزش آتی تھی نہ بچوں کے، جو (میر ممتاز کے علاوہ) ابھی بہت نو عمر اور کمسن تھے۔
مولانا سید نعمان اپنا چشم دید واقعہ لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ مسلسل کئی روز سے فاقے ہورہے تھے کہ جمعہ کا دن ہوا، حضرت منبر پر خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے لیکن بھوک اور ضعف کی وجہ سے چہرہ کے رنگ میں کچھ تغیر سامحسوس ہوا، اور جسم میں کچھ لغزش پیدا ہوئی، بڑے صاحبزادہ میر محمد ممتاز نے آگے بڑھ کر سہارا دینا چاہا لیکن انھوں نے اس کو نا منظور کیا اور پورے اطمینان کے ساتھ خطبہ دے کر منبر سے اترے، کبھی کبھی مسرت کے ساتھ فرماتے تھے کہ یہ دولتِ فقر میرے دادھیال اور نانہال دونوں کی میراث ہے۔ ع
کرا باشد میسر دولت و شانے کہ من دارم
کمالِ استغنا اور توکل کے ساتھ گزر بسر کی اور کبھی قرض لینا گوارا نہ کیا، گھر شکستہ ہو کر جگہ جگہ سے زمین بوس ہوگیا تھا، آخر میں صرف چار پائی بھر کی جگہ باقی رہی ، لیکن حرفِ شکایت زبان پر نہ لائے اور اسی میں گزارہ کیا۔
تین فرزند یادگار چھوڑے، سید محمدممتاز، سید محمد مستعان، سید محمد مستقیم، یہ تینوں اپنے والد کے تربیت یافتہ اور اسلاف کے قدم بہ قدم تھے۔
سید محمد حکم بن سید محمد جیؒ
سید شاہ علم اللہؒ کے چوتھے صاحبزادہ سید محمد جیؒ کے دو بیٹے تھے۔ سید محمد حکم اور سید محمد عدل۔ یہ دونوں فرزند آفتاب و ماہتاب سے کم نہ تھے ۔ اگر سید محمد عدل (عرف شاہ لعل صاحب) اپنے عہد میں راہِ سلوک و معرفت کے قافلہ سالار تھے تو ان کے بڑے بھائی سید محمد حکم ‘ علم و فضل میں یکتائے روزگار تھے، ’’نزہۃ الخواطر‘‘ کے مصنف نے جن کے موئے قلم نے ہزاروں با کمال شخصیتوں کی تصویر کھینچ کر رکھ دی ہے (اور جو بہت احتیاط کے ساتھ تعریف کرنے کے عادی ہیں ) ان کا تذکرہ کرتے ہوئے