علیل ہوئے اور بیماری نے نزاکت اختیار کرلی، انتقال کے وقت ان کے بھائی سید محمدہدی اور فرزندانِ گرامی سید محمد احسن و سید عظیم الدین شہید اور دوسرے خدام و اہلِ تعلق چار پائی کے پاس موجود تھے، کچھ دیر نصیحتیں فرمائیں اور کچھ وصیتیں کیں ، کسی کو انداز بھی نہ تھا کہ یہ وقت آخر ہے، اس کے بعد چند مرتبہ سورۂ إذا زلزلت الأرض تلاوت فرمائی اور چادراوڑھ لی، لوگوں کو خیال ہوا کہ سوگئے، جب اسی حال پر ایک ساعت گزر گئی تو ایک امیر نے جو حضرت شاہ علم اللہؒ کے مرید تھے، حال دریافت کیا، لوگوں نے کہا کہ کچھ دیر پہلے سورہ إذا زلزلت الأرض پڑھی اور اب شاید آرام فرما رہے ہیں ، اس نے یہ سن کر کہا وہ ہمیشہ کے لئے آرام کر رہے ہیں ، اور اپنے رب سے جا ملے ہیں ، جب تحقیق کی گئی تو یہ بات صحیح نکلی۔
تجہیز و تکفین کے بعد لاش تابوت میں رکھ کر رائے بریلی لائی گئی اور اپنے والد نامدار کے پہلو میں آسودۂ خاک ہوئے۔(۱)، تاریخِ وفات ۱۲؍ رجب ، روزِ جمعہ ۱۱۱۶ھ ہے، سید شاہ آیت اللہؒ کے دو صاحبزادیاں اور پانچ صاحبزادے تھے، سید محمداحسن، سید محمد ضیاء، سید عظیم الدین شہید، سید محمد فیاض اور سید محمد صابر۔ یہ سب صاحبزادے ورع و تقوی، شجاعت و سخاوت اور تعلق مع اللہ میں اپنے والد کے نقشِ قدم پر تھے اور ان سب کے حالاتِ زندگی بہت اعلی و ارفع و لائقِ رشک ہیں ، لیکن سید محمد ضیاء اور سید محمد صابر اس شعبہ میں بہت ممتاز اور فائق نظر آتے ہیں ، ان حضرات کا تذکرہ انشاء اللہ اپنی جگہ پر آئے گا۔
سید شاہ محمدہدیؒ
سید شاہ محمد ہدیؒ ،ایثار و سخاوت میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے، اور اسی کے ساتھ زہد و عبادت اور سلوک و ریاضت میں بھی بہت بلند مرتبہ کے مالک اور عجیب و
------------------------------
(۱) سیرتِ علمیہ و تذکرۃ الابرار و برکاتِ احمدیہ (قلمی)