صبر کی حقیقت
ایک مجلس میں صبر پر بہت طویل او رعجیب کلام فرمایا، اس کا خلاصہ یہاں پیش کیا جاتا ہے، فقیر نے اکی موقع پر نماز مغرب کے بعد دریافت کیا کہ حدیث ’’لایؤمن أحدکم حتی یحب لأخیہ ما یحب لنفسہ‘‘ کے کیا معنی ہیں ؟ حضرت شاہ صاحب نے بہت سادگی سے اس کے لفظی معنی بیان کردئے۔ فقیر نے عرض کیا کہ اس کے لفظی معنی تو معلوم تھے، حقیقت ارشاد فرمائیں ، فرمایا کہ جب ’’موتوا قبل أن تموتوا‘‘ (۱) کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے تو آدمی سب کو اپنے سے بہتر سمجھنے لگتا ہے۔ فقیر نے عرض کیا کہ اگر سختی میں اپنا نفع نظر آئے تو نفس پر سختی کرناچاہئے، فرمایا کہ نہیں ، ہوسکتا ہے کہ اس میں اتنی استعداد نہ ہو، اور وہ اس سختی پر صبر نہ کرسکنے کی وجہ سے خدا سے دور ہوجائے، ہاں اگر صبر کرسکے تو یہ سختی اس کے حق میں عین نعمت و راحت ہے۔ اس کے بعد یہ حکایت بیان فرمائی کہ ایک مرتبہ دو ماہی گیر ، ایک کافر، ایک مؤمن، دجلہ کے کنارے مچھلی کے شکار کے لئے گئے۔ مؤمن ہر مرتبہ اللہ کا نام لے کر اپنا جال دریا میں ڈالتا تھا اور ہر مرتبہ اس کا جال خالی واپس آتا تھا اورکافر ہر بار اپنے معبودوں کا نام لے کر جال ڈالتا تھا اور جب اس کو باہر نکالتا تھا تو اس میں مچھلیاں ضرور ہوتی تھیں ، شام کے وقت صرف ایک مچھلی مؤمن کے جال میں آئی اور وہ بھی جال سے نکل گئی۔ کافر کے پاس مچھلیوں کا ڈھیر ہوگیا تھا اور مؤمن ماہی گیر اس حال پر بہت شرمندہ اور حیرت زدہ تھا۔ اس کافر نے اس کا حال دیکھ کر کہا کہ خالی ہاتھ واپس نہ جاؤ، یہ مچھلیاں ہمارے گھر پہنچادو، اس کی مزدوری تمھیں مل جائے گی، فرشتوں کے اس کے حال پر بہت رحم آیااور انھوں نے خدا کے حضور میں عر ض کیا کہ بارِ الہا! اس میں کیا حکمت ہے کہ آپ کے نام پر جو جال ڈالا جاتا تھا وہ خالی نکلتا تھا اور معبودانِ
------------------------------
(۱) ترجمہ: مرنے سے پہلے مرجاؤ۔