کہ پہلے سال جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر اور تہذیبِ نفس کے لئے خود اپنے سر پر لاد کر سرِ بازار اپنے جاننے والوں اور دوستوں کے ہاں جو ان کی سابقہ حیثیت سے واقف تھے فروخت کرتے، اور جو کچھ ملتا اس پر گزر بسر کرتے۔ دوسرا سال اس طرح گزارا کہ لوگوں کے گھروں میں کنویں سے پانی بھرتے اور اس کے معاوضہ سے اپنے اخراجات پورے کرلیتے، ان خدمات شاقہ اور مجاہدات کے بعد کسی شیخ کامل کی رہنمائی اور تربیت حاصل کرنے کا شوق دامن گیر ہوا اور یہ شوق لاہور تک کھینچ لایا۔
ایک مجذوب سے ملاقات
لاہور میں ایک درویش و سالک بزرگ مقیم تھے، سید شاہ علم اللہؒ ان کی خانقاہ پہنچے، اتفاق سے ان دنوں ان کی خانقاہ میں مرمّت ہورہی تھی اور مزدور لگے ہوئے تھے، سید شاہ علم اللہؒ کو خیال آیا کہ بغیر کچھ لئے ہوئے درویشوں کے پاس جانا ٹھیک نہیں ، لیکن ان کے پاس رکھا ہی کیا تھا، مٹی گارے کے کام میں خود بھی شریک ہوگئے اور مٹی کی کچھ ٹوکریاں لے کر گارے میں ڈالیں ، تا کہ اسی بہانے سے کچھ شرکت ہوجائے، اس کے بعد ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام کیا، انھوں نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا:’’بیا سید در میدانِ مرداں سرخ رو شو‘‘ (آؤ سید! مردوں کے میدان میں سرخرو ہو)، اس کے بعد بہت بشارتیں دے کر رخصت کیا۔(۱)
حضرت سید آدم بنوریؒ کی خدمت میں
سید شاہ علم اللہؒ کو ابتدا ہی سے حضرت سید آدم بنوریؒ سے بیحد عقیدت تھی اور معلوم ہوتا ہے کہ ایامِ تعلیم ہی سے ان کے ذہن میں یہ بات تھی کہ اگر کسی سے بیعت ہونا ہے تو وہ سید آدم بنوریؒ ہیں ۔
تذکرۃ الابرار میں جو واقعہ مرقوم ہے اس سے اس کا صاف اشارہ ملتا ہے:
------------------------------
(۱) تذکرۃ الابرار۔