اُن کو اس’’راہِ طلب‘‘ میں پیش آرہے تھے اس میں اتنی آمیزش بھی (اگر اس کو آمیزش کہا جاسکتا ہو) گوارا نہ کی۔
در حقیقت یہ آخری درجہ کی فنائیت، اعلی درجہ کی عزیمت، سچی محبت، عالی ظرفی اور خدا کے فضلِ خاص کی علامت ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں ہر با کمال اور صاحبِ احوال کی رسائی نہیں ہوسکتی، الا ما شاء ربک۔
دوسرا حج اور مسجد کی نئی تعمیر
سید شاہ علم اللہؒ نے دوسرا حج تقریباً ۱۰۸۲ھ میں کیا، اس کی کچھ تفصیلات کتابوں میں نہیں ملتیں ، اتنا ثابت ہے کہ اس مرتبہ واپسی پر اپنے ساتھ ایک کاغذ پر حرم کا نقشہ کھینچ کر لائے، اس کے ایک سال بعد ۱۰۸۳ھ میں کعبۃ اللہ کی پیمائش کے مطابق سئی ندی کے بالکل کنارے اپنے مسکن کے پاس مسجد کی تعمیر کی، اس کی بنیادوں میں آبِ زمزم ڈالا اور طول و عرض اور ساخت ہر چیز میں ادب کے خیال سے چند انگل کم رکھا، روشنی کے لیے اس کے چاروں طرف تین تین دروازے بنائے اور چاروں طرف مطاف کی طرح فرش بھی بنایا، ؎
زہے پر فیض آں مسجد مکرم
دہد از کعبۃ اللہ یاد ہر دم
’’مہرِ جہاں تاب‘‘میں ہے کہ سید شاہ علم اللہؒ واپسی میں اپنے ساتھ مکہ معظمہ سے ایک پتھر بھی لائے تھے جو تعمیر کی بنیاد میں رکھا اور اس کی تعمیرمیں معماروں کے ساتھ خود بھی شریک ہوئے اور اپنی اولاد کو بھی شریک کیا ’’وإذ یرفع إبراھیم القواعد من البیت وإسماعیل، ربنا تقبل منا إنک أنت السمیع العلیم۔‘‘(۱)
------------------------------
(۱) مہرِ جہاں تاب ، ص: ۷۳۶۔ قبلۃ ثان مسجد کی تاریخِ تعمیر ہے جو مسجد کے جنوبی دروازہ پر کندہ ہے۔