اور لکڑیاں اپنے سر پر لاد کر فروخت کرتے اور صرف یہی نہیں بلکہ نصف رقم سے اپنا کام چلاتے اور باقی نصف محتاجوں میں تقسیم کردیتے۔(۱)
اس شان کے ساتھ تھوڑی مدت وہاں رہے، جب رخصت ہونے لگے تو عرض کیا کہ اس طرف اودھ میں بہت سے اولیاء اور عالی مرتبہ لوگ ہیں ، میری ان میں حیثیت ہی کیا ہوگی، حضرت سید آدمؒ نے کچھ دیر مراقب ہو کر فرمایا ان میں تمھاری حیثیت ایسی ہوگی جیسے چراغوں میں شمع کی، پھر کچھ دیر مراقبہ کے بعد فرمایا، سید خاطر جمع ہوجاؤ اور اپنی جگہ پر بیٹھ جاؤ، تمھاری نسبت ان میں ایسی ہوگی جیسے ستاروں میں آفتاب کی۔(۲)
ہجرت کا خیال
سید شاہ علم اللہؒ کے جدِّ امجد قاضی سید احمدؒ نے ایک نزاع اور شریعت کی بے حرمتی کی وجہ سے ترکِ وطن کرکے رائے بریلی میں سکونت اختیار کرلی تھی، اور سید شاہ علم اللہؒ کے والد سید محمد فضیل نے (جو عجیب و غریب اور قابلِ رشک حالات رکھتے تھے) اسی سبب سے اور احکامِ شرعیہ کی بے حرمتی کی تاب نہ لا کر اس ملک کو خیر باد کہہ دیا اور مدینۃ الرسول ﷺ میں آسودۂ خاک ہوگئے، سید شاہ علم اللہ نے بھی اس سنت ہجرت پر عمل کیا۔
راقم سطور کا خیال ہے کہ وہ بھی اسی قسم کے واقعات سے دل برداشتہ ہوئے جو ان کے آبائے کرام کے ساتھ پیش آئے تھے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نصیرآباد کا عہدۂ قضا چوں کہ اسی خاندان میں رہا اور اس کے علاوہ وجاہت و اعتماد کی وجہ سے قصبہ کے زمین و جائداد کے مسائل یا خاندانی اختلافات ان ہی حضرات کے سامنے آتے ہوں
------------------------------
(۱) مہرجہاں تاب ، ص/۷۳۶۔
(۲) سیرت سید احمد شہیدؒ از مولانا سید ابو الحسن علی ندوی، ص: ۶۰