ساری زندگی اسی زہد و تقوی اور ارشاد و تربیت میں گزار کر ۲۴؍ ربیع الثانی ۱۱۵۶ھ کو مالکِ حقیقی سے جا ملے اور عشاء و مغرب کے درمیان مسجد سید شاہ علم اللہؒ کے جنوب مغرب میں ’’مولسری‘‘ کے درخت کے نیچے آسودۂ خاک ہوئے۔
ان کی نسبتِ صحیحہ اور دعوتِ باطنی کا ذکر کرتے ہوئے مولانا عبد الحیؒ نے حسبِ ذیل الفاظ لکھے ہیں جس سے ان کے علوئے مرتبت پر روشنی پڑتی ہے:
’’و کان آیۃ باہرۃ و نعمۃ ظاہرۃ فی النسبۃ الصحیحۃ وقوۃ التأثیر فی إلقاء النسبۃ۔‘‘
(نسبتِ صحیحہ، قوتِ تاثیر اور توجہ ڈالنے میں وہ اللہ تعالی کی کھلی ہوئی نشانی اور نعمت تھے)
صاحبِ ’’بحرِ زخار‘‘ نے شاہ صاحب کے فرزندوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے متعلق لکھا ہے:
’’خصوصاً میر سید محمد از ہم خرد تر بود و مانند آخریں مصرعہ رباعی، از غایت تصوف مذاق دیگر نداشت، خلائق بمداحی او می کوشد۔‘‘
(خاص طور پر میر سید محمدؒ ان سب سے چھوٹے اور رباعی کے آخری مصرعہ کی مانند تھے، تصوف و سلوک کے سوا اور کوئی مذاق نہ رکھتے تھے، ایک خلقت ان کی مدح میں رطب اللسان ہے۔)
معمولات
عادت شریف یہ تھی کہ عشاء کی نماز پڑھتے ہی مکان تشریف لے جاتے، اس وقت اکثر اہلِ تعلق و احباب دروازہ تک ہمراہ رہتے، صبح کی نماز کی سنتیں گھر پر پڑھتے اور اسکے بعد مسجد تشریف لاتے اور اپنے صاحبزادہ شاہ محمد عدلؒ (جو بعد میں ان کے جانشین اور بہت بڑے شیخ وقت ہوئے) کی اقتدا میں صبح کی نماز ادا کرتے، نماز