قریب ہی موجود تھے۔ انھوں نے جواب دیا :’’علم اللہ‘‘۔ رات تاریک تھی اور ابر و باد کا موسم تھا اس لئے اتفاق سے اس وقت کوئی بھی بادشاہ کے پاس موجود نہ تھا، آدھی رات کے وقت پھر بادشاہ کی آنکھ کھلی اور اس نے پوچھا اس وقت کون ہے؟ سید علم اللہ بیدار تھے انھوں نے فوراً کہا : ’’علم اللہ‘‘۔ بہرِ حال جتنی بار بادشاہ نے پوچھا اس کو یہی جواب ملا، صبح کے وقت بادشاہ نے ان سے پوچھا کہ کیا آج کی رات تمھارے سوا اور کوئی نہیں تھا؟ سید علم اللہؒ نے فرمایا:ہاں ،بادشاہ اس فرض شناسی اور کار گزاری سے بے حد خوش ہوا، اور بڑے انعامات اور خلعت فاخرہ سے نوازا۔(۱)لیکن سید شاہ علم اللہ پر اس کا الٹا اثر پڑا، ان کو اس رات کے ضائع ہونے پر افسوس ہوا، ’’مہر جہاں تاب‘‘ میں ہے کہ ان کے دل میں خیال آیا کہ محض ایک مخلوق کی خاطر داری کے لئے میں نے پوری رات گزار کر سحر کردی، کاش یہ رات خالق ارض و سماوات کی عبادت میں بسر کی ہوتی اور اس کے بدلہ میں لافانی دولت اور لازوال نعمت حاصل ہوتی، مجازی بادشاہ حاجب و دربان رکھتے ہیں او رمقربین کو کبھی کبھی باریاب کرتے ہیں ، بادشاہِ حقیقی تک پہنچنے کے لئے کوئی حاجب و دربان نہیں ، آشنا اور شاہ و گدا سب کے لئے اس کا دروازہ کھلا ہوا ہے، پھر ان سب بندوں کا نظام اسی بے نیاز کے ہاتھ میں ہے، اسی کی طرف اپنا رُخ کیوں نہ رکھا جائے اور اسی سے کیوں نہ مانگا جائے۔
ترک و تجرید
اس خیال نے اتنا بے قرار کیا کہ اپنے خیمہ سے ننگے پیر، ننگے سر، لنگی باندھ کر خیمہ سے باہر نکل آئے، اور صلائے عام کردی کہ یہ سارا سامانِ احتشام، اسباب،
------------------------------
(۱) سید محمد نعمان صاحبِ ‘‘اعلام الہدی’’ کی روایت ہے کہ ان کے ماموں سید ابو محمد نے اپنے طور سے ان کے لئے سارے انتظامات کر دئے تھے، اور دربار میں ان کی حیثیت کے لائق جگہ بھی متعین کردی تھی، میرا خیال ہے کہ یہ سب ان کی منظوری اور باقاعدہ ملازمت سے قبل تھا اور اس لئے کیا گیا تھا تا کہ وہ یہ پرکشش ماحول کو دیکھ کر خود اس جگہ کو اپنے لئے پسند کرلیں ، مذکورہ بالا واقعہ مہرِ جہاں تاب(ص: ۷۳۶ )میں منقول ہے۔