ان کے فرزند سید محمد جامع جو حقیقت میں جامعِ اوصاف اور تواضع، حلم اور سخاوت میں ممتاز تھے اپنے والد ہی کی حیات میں دشمنوں کے ہاتھوں شہید ہوئے اور کوئی اولاد نہ چھوڑی۔
سید محمد نور بن سید محمد ہدیؒ
سید شاہ علم اللہ کے دوسرے صاحبزادے سید محمد ہدی کو اللہ تعالی نے دو ایسے بیٹے عطا فرمائے جو صحیح معنی میں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سرور تھے، پہلے کا نام سید محمد نور اور دوسرے کا سید محمد سنا ہے۔
سید محمد نور، سید احمد شہیدؒ کے حقیقی دادا تھے، ان کی ولادت کے وقت ان کے دادا سید شاہ علم اللہؒ حیات تھے، شروع ہی سے سید شاہ علم اللہؒ کے منظور نظر رہے، اور یہی نظر ان کا سلوک بن گئی، ان کے والد سید محمد ہدی فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالی کی ذات سے امید ہے کہ اس فرزند ارجمند کی برکت سے میری بھی مغفرت ہوجائے گی۔
عنفوانِ شباب میں والدکے حکم سے شاہزادہ محمد اعظم شاہ (پسر عالمگیر) کے پاس بغرض ملازمت تشریف لے گئے، شمشیر خاں جو اعظم شاہی امیر اور ان کے جد امجد سید شاہ علم اللہؒ کے مرید تھے، درمیان میں واسطہ تھے، انھوں نے امیر سے پہلے ہی کہہ دیا کہ شاہی ملازمت میں اس شرط پر قبول کرسکتا ہوں کہ تسلیمات و بندگی، تعظیماً سر جُھکانے اور اس قسم کے دوسرے آداب شاہانہ سے معاف رکھا جائے، ورنہ میں واپس آجاؤں گا۔ امیر نے اس شرط میں کچھ دشواری محسوس کی، لیکن دیکھ کر کہ وہ اس ارادے سے باز نہ آئیں گے‘ شاہزادہ سے عرض کیا کہ پیر زادہ صاحب ملازمت قبول کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن ایک شرط لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر یہ شرط منظور ہو تو آسکتا ہوں ورنہ نہیں ، شاہزادے نے پوچھا کہ وہ شرط کیا ہے؟ امیر نے کہا صاحبزادہ سنت پر پوری ہمت و استقامت کے ساتھ عامل ہیں اور منہیات سے اجتناب کلی رکھتے ہیں ،