چکی کا پاٹ بھی تحقیق کرکے اسی طرح کا دیا جیسا رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہؓ کے جہیز میں دیا تھا۔(۱)
رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم سے تعلق
اس اتباعِ سنت اور عشقِ رسول کی برکت سے جو احوال و واقعات اور اذواق و کیفیات، خوارق و کرامات اور بشارات وغیرہ پیش آتی رہتی تھیں ان سے اس روحانی و قلبی تعلق کا اندازہ ہوتا ہے، جو ان کو رسول اللہ ﷺ سے تھا، ایسے واقعات اور بشارتوں کی تعداد بہت ہے، لیکن سید شاہ علم اللہؒ کے اصل کمالات و اوصاف جن کا ذکر اوپر گزرا اس سے مستغنی اور بے نیاز ہیں ، اور ان کو اس تصدیق یا اس اضافہ کی چنداں ضرورت نہیں ۔ ع
روئے دل آرام را حاجتِ مشاطہ نیست
تا ہم اس ضمن کے صرف دو واقعے یہاں درج کئے جاتے ہیں جن سے ان کی اس حیثیت رسول اللہ ﷺ سے نسبتِ خاص، اور علوِ مرتبت کا اندازہ ہوگا:
’’شیخ عبد الرحمن جو شاہ صاحب کے اجلۂ رجال میں تھے بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ شاہ صاحب اپنے گھر سے کلہاڑی اور رسی لے کر باہر نکلے، مجھ کو بیدار کیا اور دو تین آدمیوں کے ہمراہ جنگل کی طرف چلے، سب نے مل کر لکڑیاں کاٹیں اور گٹھربنا کر اپنے سروں پر لادا، شاہ صاحب نے بھی ایک گٹھر اپنے سر پر رکھا اور خانقاہ کی طرف
------------------------------
(۱) ظاہر ہے کہ یہ کوئی فرض و اجب چیز نہیں لیکن مطابقِ سنت ہونے میں کیا کلام ہوسکتا ہے اور اصل بات یہ ہے کہ یہ سب محبت کی کارفرمائی اور کرشمہ سازی ہے، یہ نہ ہو تو نماز کے لئے سویرے اٹھنا مشکل اور یہ ہو تو پوری پوری رات عبادت میں گزاردینا، ایک معمولی سنت کی پیروی میں ہر قسم کی ملامت سننا آسان و خوش گوار ہے ؎
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی