ان کے ساتھ بھی وہی واقعہ پیش آیا جو ان کے دادا کے ساتھ پیش آیا تھااور جس کی وجہ سے وہ نصیر آباد سے رائے بریلی منتقل ہوئے تھے۔
نصیر آباد میں بعض مسائل اور اختلافات کے تصفیہ کے لئے ایک اجتماع تھا، دورانِ گفتگو میں سید محمد فضیل نے فرمایا کہ یہ اختلافات شریعت کے حکم کے مطابق طے کرلینے چاہئیں ، اسی میں دنیا و آخرت دونوں کی فلاح ہے، بعض جاہل اور بد زبان آدمیوں نے جواب دیا کہ شریعت کیا ہے، ہمارے بزرگ جو فیصلہ کر دیں گے وہی درست ہے، سید محمد فُضیل یہ بات سُن کر بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ:’’در دیار بے ادباں بود و باش حرام است‘‘(بے ادبوں کے دیار میں بود و باش حرام ہے)۔
سید محمد فضیل اسی روز سب سے رخصت ہوئے اور گھر بار چھوڑ کر حرمین شریفین ہجرت کر گئے اور اپنی ساری عمر جوارِ رسولؐ میں گزاردی اور ۱۰۳۲ھ میں وہاں وفات پاکر زندہ جاوید ہوئے۔(۱)
سید محمد اسحاق
سید محمد اسحاق حضرت سید آدم بنوری کے معاصر ہیں ، ان کو اکثر مشائخ اور بزرگوں سے استفادہ کا موقع ملا، تمام عمر مجاہدات، ریاضتوں اور نفس کشی میں گزری جس کے متعدد واقعات خاندانی مآخذ میں محفوظ ہیں ، ان کے فرزند دیوان سید خواجہ احمد اپنے وقت کے متبحر عالم اور صاحبِ باطن بزرگ تھے، جب ان کے انتقال کا وقت قریب ہوا تو دیوان خواجہ احمد صاحب طالب علم تھے، بھائی ہجرت کرچکے تھے، اس لئے یہ امانت ایک امین کے سپرد کی اور عالم جاودانی کی طرف منتقل ہوئے، ان کی قبر قاضی باغ میں قاضی سید محمد کی قبر کے سامنے ہے۔ دیوان خواجہ احمد کے علاوہ ان کے دو صاحبزادے اور تھے، مولانا سید ہدایت اللہ و سید تاج الدین، جن میں مولانا سید
------------------------------
(۱) تذکرۃ الابرار، ان کی تاریخ وفات‘‘ولنعم دار المتقین ’’ ہے۔