چھوٹے صاحبزادہ حضرت سید محمد (جو ان کے خلیفہ اور معتمد ومشیر بھی تھے اور شاہ صاحب کو ان سے بہت خاص تعلق تھا) ان ملاقاتوں میں شاہ صاحب کی نیابت کرتے تھے اور واسطہ بنتے تھے، کچھ عرصہ تک یہ معمول رہا کہ اگر کوئی ملنے آتا تو پہلے سید محمدؒ کو بھیج دیتے کہ وہ اس کا اندازہ لگالیں کہ اس کے خیالات کیسے ہیں اور کیوں ملنا چاہتا ہے، سید محمدؒ جیسا بتاتے اس پر عمل کرتے، ان کا ذوق و رجحان سید شاہ علم اللہؒ سے اس قدر مشابہ تھا کہ ان کی رائے اکثر وہی ہوتی جو ان کے والد کی ہوتی۔
شاہ صاحبؒ نے ایک رسالہ ’’قوت العمل‘‘(۱) کے نام سے لکھا تھا اور اس میں عقائد، ایمانیات، اصلاحِ اعمال، اتباعِ سنت پر مختصر اور جامع طریقہ پر روشنی ڈالی تھی، اس کے بعد یہ معمول ہوگیا کہ جو ملنے آتا اس کو یہ رسالہ سید محمدؒ کے ہاتھ باہر بھیج دیتے، پڑھا لکھا آدمی ہوتا تو وہ رسالہ اس کے ہاتھ میں دے دیا جاتا، اگر غیر تعلیم یافتہ ہوتا تو سید محمدؒ پڑھ کر اس کو سناتے۔
تقلیلِ غذا
مولانا محمد نعمان صاحبِ ’’اعلام الہدی‘‘ اپنے والدِ ماجد کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ آخری ایام میں غذا بالکل کم بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں ترک کردی تھی۔
وفات
سید شاہ علم اللہؒ کی پیدائش ۱۲؍ربیع الاول کو ہوئی تھی، بچپن ہی میں والدین کا سایہ سر سے اُٹھ گیا تھا اور ماموں نے پرورش کی تھی، اس طرح ان کی زندگی کا آغاز ہی سنت سے ہوا، پوری عمر پیروئ سنت اور اشاعتِ سنت میں گزری اور اللہ تعالی کی رحمت و کرم کی عجب شان ہے کہ ان کی وفات بھی اس عمر میں ہوئی جس عمر میں جناب رسول اللہ ﷺنے وفات پائی تھی۔
------------------------------
(۱) اس رسالہ کا ذکر آگے ملے گا۔