در مذہب طریقت سستی نشان کفر است
آرے طریقِ دولت چالاکی است وچستی
عشق اور محبت
ایک مرتبہ مختلف فیوض و معارف کے درمیان عشق اور محبت پر بھی کلام فرمایا، ارشاد ہوا کہ محبت متعدد ہے اور عشق خاص ہے، چنانچہ رسولِ خدا ﷺ نے محبت کا لفظ اپنے اصحاب و ازواج کے لئے بھی استعمال فرمایا ہے، لیکن عشق کے لئے جو خلّۃ سے عبارت ہے صرف اللہ تعالی کے ساتھ مخصوص ہے، ’’لو کنت متخذا خلیلا لاتخذتُ أبا بکر خلیلا ولکن اﷲ خلیلی۔‘‘ اس سے یہ سمجھنا چاہئے کہ اہل اللہ اگر چہ صورت محبت میں تمام دوستوں اور محبین کو شریک رکھتے ہیں لیکن ان کے دل میں خدا کی محبت و عشق کے سوا کسی اور کی گنجائش نہیں ہوتی، اس کے علاوہ جو محبت حق کیلئے خلق کے ساتھ ہوتی ہے وہ بھی محبت حق ہی میں شامل ہے، زبان گہر بار سے یہ شعر بھی ارشاد ہوا ؎
حافظ ہر آں کہ عشق نور زید و وصل خواست
احرام طوف کعبہ دلے بے وضو بہ بست
اس فقیر نے دریافت کیا کہ یہ محبت بندہ کی سعی سے بھی حاصل ہوتی ہے یا محض فضلِ حق سے ، ارشاد ہوا کہ کوئی چیزفضل حق کے بغیر ممکن نہیں ، دو رکعت نماز ہے تو وہ بھی اللہ کے فضل سے ہے، ہزار رکعت ہے وہ بھی خدا کے فضل سے ہے، ہماری بصارت اور سماعت، ہماری گویائی او رجتنے نیک کام ہم سے صادر ہوتے ہیں وہ سب اللہ کے فضل سے ہوتے ہیں ، ہم کیا ہیں اور ہماری ہستی کیا ہے، ہم جو کچھ ہیں اسی سے ہیں اور اسی کے ہیں ۔