مرتبہ رائے بریلی آئے اور اسی تکیہ شاہ علم اللہؒ میں انھوں نے رات کو آرام فرمایا اور اس کی مسجد میں فجر کی نماز پڑھی، تو بغیر کسی مطالعہ و مراقبہ کے تھوڑے ہی وقت میں ان کو حضرت شاہ صاحب کے مرتبہ و مقام کا اندازہ ہوگیا، اور انھوں نے میرے سامنے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب سے جو اس سفر میں ساتھ تھے، بڑے تاثر کے لہجہ میں فرمایا کہ مولوی زکریا! ہم تو سمجھتے تھے کہ سید صاحب ( حضرت سید احمد شہیدؒ) ہی بہت بڑے ہیں ، حضرت شاہ علم اللہ صاحبؒ تو بہت ہی بڑے ہیں ۔
افسوس ہے کہ اس عالی مرتبت شخصیت کے حالات، ملفوظات اور تحقیقات بہت کم ملتی ہیں اور جو کچھ ملتا ہے اس سے اس مرتبہ کا پہچاننا بہت مشکل ہے جس کا اعتراف ان کے نامور معاصرین نے بڑی فراخ دلی کے ساتھ کیا ہے، اگر چہ ان کے خاندان کے اہلِ علم اور اہلِ قلم بزرگوں نے جن میں ان کے پر پوتے مولانا سید نعمان صاحب، جو حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ کے مسترشدین و خواص میں سے ہیں ، کا نام اور کام سب سے روشن ہے۔ ان کے حالات لکھنے کا اور خاندانی روایات کے محفوظ کرنے کا اہتمام کیا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام دیر سے شروع ہوا، اور جو کڑیاں گم ہوچکی تھیں ان کے دستیاب ہونے کا کوئی امکان نہ تھا پھر بھی ان کی کتاب ’’اعلام الہدی‘‘ اس سلسلہ کی ایک بنیادی اور اہم تاریخی دستاویز ہے ۔ ان کے بعد ترتیب و تدوین کا دوسرا قدم اس خاندان کے مؤرخ مولوی حکیم سید فخر الدین صاحب خیالی نے اُٹھایا، اور ’’تذکرۂ علمیہ‘‘کے نام سے متفرق مواد کو یکجا جمع کردیا، بعد میں ان کے خلف الرشید مولانا حکیم سید عبد الحی صاحبؒ نے اس میں مزید اضافہ اور اس کی تکمیل کی، اور اس کا نام ’’تذکرۃ الابرار‘‘ رکھا۔
اب آخر میں یہ سعادت ان کے پوتے مولوی سید محمد الحسنی سلمہ کے حصہ میں آرہی ہے، جو ان کے لئے دوگانہ سعادت اور فخر کی بات ہے کہ ایک طرف اپنے