اور طریقت کے حقائق و معارف میں بلند پایہ رکھتے تھے۔(۱)
شیخ عبد الاحد نبیرہ سید آدم بنوریؒ
شیخ عبد الاحد حضرت سید آدم بنوریؒ کے پوتے اور شیخ محمد اولیاء کے صاحبزادہ ہیں ، ان کے والد کا انتقال ان کے بچپن میں ہوگیا تھا، علومِ ظاہری سے فراغت کے بعد سلوک و علم باطن کا داعیہ پیدا ہوا، اپنے نامور دادا کے اصحاب و اہلِ تعلق سے مشورہ کے بعد بنور سے روانہ ہوئے، سید شاہ علم اللہؒ کو جب ان کی آمد کی اطلاع ہوئی تو بہت دور جا کر ان کا استقبال کیا اور انتہائی تکریم و ارادت کا معاملہ کیا، اور یہ خواہش کی کہ مخدوم زادہ سواری پر تشریف رکھیں اور قافلہ کے جلو میں روانہ ہوں ، لیکن انھوں نے اس کو پسند نہ فرمایا اور سید شاہ علم اللہؒ کو اس پر مجبور کیا کہ وہ بھی سورای پر تشریف رکھیں ، مجبوراً شاہ صاحب بھی سواری پر بیٹھے، لیکن اس طرح کہ ادباً پیر گاڑی سے باہر تھے، غرض اس طرح ان کو خانقاہ تک لائے اور عجیب ارادت و تواضع کا معاملہ کیا، چند روز کے بعد شیخ عبد الاحد نے درخواست کی کہ ان کو سلوک کے طریقۂ عالیہ سے سرفراز فرمایا جائے، سید شاہ علم اللہؒ نے جواب دیا: ہر چہ در بغداد است گردِ سرِ خلیفۂ مازیادہ از امانت دار نیستم‘‘(جو کچھ بغداد میں ہے سب خلیفہ کا ہے، ہم تو صرف امانت دار ہیں )۔
بالآخر ان کو سلوک طریقۂ احسنیہ کی تعلیم دی اور اس کے اعلی مراتب سے سرفراز ہوئے، تکمیل کے بعد وطن مراجعت کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ سید شاہ علم اللہؒ نے رخصت کیا اور مثنوی مولانا روم کا ایک نسخہ اور بیس روپیہ نقد ان کی خدمت میں پیش کیا۔(۲)
------------------------------
(۱) اتذکرۃ الابرار۔
(۲) تذکرۃ الابرار و نزہۃ الخواطر۔