گھر میں فاقہ ہوتا اور ہانڈی نہ چڑھی ہوتی وہ بجائے اس کے کہ یہ کہتا کہ آج ہمارے گھر میں چولھا نہیں جلا، یہ کہتا کہ آج ہمارے گھر میں حضرت جیو (شاہ علم اللہ صاحب) مہمان ہیں ، یہ ماؤں کی تعلیم کا اثر تھا، ہمارے زمانہ میں تو یہ بات نہیں رہی تھی مگر ان کی شخصیت ہمارے لئے اب بھی ایک مثالی شخصیت اور ایک محبوب ذات کی حیثیت رکھتی تھی، جب مسجد جانا شروع ہوا تو مسجد کی سیڑھیوں کے پاس جانبِ مشرق و جنوب ایک چہار دیواری دیکھی جس میں چند کچی قبریں بغیر کسی تختی، شمعدان، اور زینت و آرائش کے نظر آئیں ، موسم برسات میں سبز گھاس کے سوا، اس پر کبھی کوئی چادر نہیں پڑی اور اس طرح جہاں آراء بیگم دختر شاہ جہاں کا یہ شعر بالکل حسبِ حال تھا ؎
بغیر سبزہ نہ پوشد کسے مزار مرا
کہ قبر پوشِ غریباں ہمیں گیاہ بس است
غالباً یہ قبور ہندوستان کے مسلم الثبوت بزرگوں کی چند گنی چنی قبروں میں ہوں گی جن پر صدیوں کے عرصہ میں نہ کبھی چادر چڑھی، نہ چراغ جلا، نہ پھول چڑھے، اتباعِ سنت اور شرک و بدعات سے نفرت کا یہ اثر وفات کے بعد قائم رہنا ایک کُھلی کرامت ہے ؎
یہ رُتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
انھیں قبروں میں سے ایک خام اور بے نشان قبر اس ذات و الا صفات کی تھی جس کا علوئے مقام ، قوتِ نسبت اور ذات نبوی ﷺ سے قرب و مناسبت، مشائخ وقت اور بوریا نشین فقیروں سے لے کر اس عہد کے سب سے بڑے طاقت ور فرماں روا، صاحبِ اورنگ و سریر، شہنشاہ عالم گیر تک کو تسلیم تھی۔
ہم بچپن میں کئی کئی بار اس مقبرہ کو دیکھتے، اس کے آس پاس کھیلتے، ہم کو معلوم نہ تھا کہ اس میں کون سے اللہ کے بندے محوِ استراحت ہیں ۔
جب کتابوں کے مطالعہ کی صلاحیت پیدا ہوئی تو معلوم ہوا کہ ہماری چھوٹی