کے مہمان اور ان کے مکان میں فروکش تھے، اسی اثناء میں طبیعت خراب ہوئی اور مرض اتنا بڑھا کہ ارادہ کے خلاف چند روز وہاں قیام کرنا پڑا۔ ایک رات بیماری نے اتنی شدت اختیار کی کہ بالکل مایوسی ہوگئی، سید عبد اللہ محدث یہ محسوس کر کے کہ آخری وقت معلوم ہوتا ہے، اور مکمل تنہائی ہے نہ جانے کیا صورت ہو، اپنے چند دوستوں کے ساتھ گھر سے نکلے اور شاہ صاحب کے حجرہ کے دروازے پر کھڑے ہوگئے، اچانک کمرہ ایک غیر معمولی نور سے جگمگا اٹھا اور تجلی ظاہر ہوئی ، فرطِ ہیبت اور جلال کی وجہ سے قدم آگے بڑھانے کی ہمت نہ ہوئی اور وہیں کھڑے رہ گئے، اسی وقت ان کے کان میں یہ آواز آئی جیسے کوئی کہہ رہا ہے: ’’السلام علیک یا ولدی‘‘ سیدموصوف نے جو خود ایک شیخ اور عالم ربانی تھے قرائن سے محسوس کرلیا کہ شاید رسول اللہ ﷺ عیادت کے لیے تشریف لائے ہیں ، تھوڑی دیر مجلس کے خاتمہ پر پھر آواز : ’’السلام علیک یا ولدی‘‘ اور اس کے جواب میں : ’’وعلیک السلام یا رسول اللہ ﷺ‘‘ کی آواز آئی۔
سید عبد اللہ محدث، شاہ صاحب کوورع و عزیمت اور اتباعِ سنت میں یکتائے زمانہ اور بے نظیر سمجھتے تھے، لیکن ان کو باطنی حالات و کمالات کا اتنا اندازہ نہ تھا او ر بیعت میں تردد تھا ، اس واقعہ سے ان کو غایت عقیدت پیدا ہوگئی اور بیعت سے سرفراز ہوئے۔(۱)
اخفائِ حال
باطنی کمالات و احوال اور کرامات و خوارق بہ کثرت پیش آتے تھے، لیکن اخفاء حال کا اس قدر اہتمام اور اس میں اس قدر تشدد تھا کہ اس کا بہت کم حصہ عام طور پر لوگوں کو معلوم ہوپاتا تھا بلکہ اگر ان کو یہ علم ہوجاتا تھا کہ فلاں نے ان کے متعلق کوئی ایسی بات کہی ہے تو اس سے سخت ناراض ہوتے اور ایسی تنبیہ کرتے کہ پھر دوبارہ ہمت
------------------------------
(۱) سیرتِ علمیہ