درست نہیں اور ان کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے اور اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ۔
خلوت و ریاضت کے بارے میں شاہ صاحب کا مسلک
سید شاہ علم اللہؒ کا یہ معاملہ صرف مبتدعین کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ اگر کسی بڑے صاحبِ حال اور صاحبِ قال کے متعلق ان کو یہ معلوم ہوتا کہ وہ سنن و مستحبات کی زیادہ پرواہ نہیں کرتے اور اپنے وظائف و معمولات کی طرف ان کو زیادہ توجہ ہے تو وہ ان سے میل جول رکھنا بھی پسند نہ کرتے (اور بعض اوقات ملنے اور سلام کرنے کے بھی روا دار نہ ہوتے) وہ ایسے اوراد و معمولات، اذکار و اشغال اور مراقبہ و خلوت کے قائل نہ تھے جو سنتِ نبوی سے متصادم ہوں ، یا اس سے اتباعِ سنت میں کمی آتی ہو یا اس میں سنت کا حصہ بہت کم اور تصوف کے دوسرے طریقوں کی آمیزش بہت زیادہ ہو، وہ جماعت کے ساتھ ایک وقت کی نماز، اور کسی ایک سنت پر عمل کو ہزار ریاضت اور چلہ کشی اور کشف و کرامت سے افضل اور ضروری قرار دیتے تھے اور ان ہی احوال و مقامات کو معتبر اور با برکت سمجھتے تھے جو احکامِ شریعت کے تابع اور انوارِ سنت سے معمور ہوں ۔
ہم ایک واقعہ یہاں پیش کرتے ہیں جن سے ان کے طرزِ عمل اور ذہن و مزاج کا آسانی کے ساتھ اندازہ ہوجائے گا:
’’ایک مرتبہ سید شاہ علم اللہؒ حیدر آباد کے کسی شہر میں تشریف لائے، جمعہ کا روز تھا، نماز کے لئے اپنی قیام گاہ سے جامع مسجد میں آئے وہاں ایک حجرہ میں ایک بزرگ چلہ کش تھے، ان کے مریدین وخدام نے جب اس قافلہ کو دیکھا تو شاہ صاحب کے ہمراہیوں سے ان بزرگ کی بہت تعریف کی، ان لوگوں نے شاہ علم اللہؒ سے ذکر کیا کہ یہاں اس پایہ کے ایک بزرگ تشریف فرما ہیں ، ان سے ملاقات کرنی چاہیے، شاہ علم اللہؒ تیار ہوگئے اور فرمایا نماز کے بعد مسجد ہی میں ملاقات کرلیں گے،