اور اپنے شیخ کی بات یاد کرو جو انھوں نے رخصت کرتے وقت کہی تھی، اب سید شاہ علم اللہؒ کو حضرت شیخ آدم بنوریؒ کا یہ قول یاد آیا کہ :’’جاسکتے ہو لیکن اگر کوئی مردِ خدا تمھیں کہیں روکے تو ٹھہرجانا‘‘ فوراً اقامت کا فیصلہ کرلیا،(۱) اور ان سے کہہ دیا کہ بہتر ہے نہ جاؤں گا۔
وقائعِ احمدی میں ہے کہ انھوں نے سید شاہ علم اللہؒ کا ہاتھ پکڑلیا اور مکان کے قریب لاکر کہنے لگے : ’’ہم تم یہیں رہیں ایکی پار، لوگ جانے یہ یہ پار وے وہ پار‘‘ (یعنی ہم تم اسی پار رہیں گے اور لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ اس پار ہیں اور وہ اس پارہیں )(۲)اس کے بعد ایک خط مربع کھینچا اور کہا یہ مسجد بناؤ، پھر ایک خط مربع کھینچا اور کہا یہ اپنا مقبرہ بناؤ، اگر کوئی مَرے یہاں دفن کرنا، اس کے بعد سید شاہ علم اللہؒ کو دعا دی کہ حق تعالی اس زمین کو تمھاری اولاد سے آباد کرے اور اچھے اچھے لوگ تمھاری اولاد سے پیدا کرے۔
شاہ عبدالشکور یہ کہہ کر اپنے مکان چلے گئے اور سید شاہ علم اللہؒ نواب جہان خاں کے پاس واپس آئے اور ان سے کہا کہ اب میرا ارادہ اسی جنگل میں دریا کے کنارے رہنے کا ہے، اس کے بعد اپنے خاندان کو ساتھ لے کر اس جگہ آئے اور طرحِ اقامت ڈال دی۔
مکان کی تعمیر
دولت خاں زمیندار لوہانی پور (لوہانی پور‘ دائرہ شاہ علم اللہؒ کے قریب جانبِ
------------------------------
(۱) وقائعِ احمدی و تذکرۃ الابرار
(۲) شاہ عبد الشکور صاحبؒ کا مقبرہ اسی پار ہے جس طرف سید علم اللہؒ کا مقبرہ ہے لیکن کچھ فاصلہ اور کچھ دریا کی کاٹ ایسی ہے کہ دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ وہ اس پار ہے، راقمِ سطور کو وہاں جانے کا اتفاق ہوا اور بالکل یقین ہوگیا کہ مقبرہ دریا کے دوسری طرف ہے لیکن یہ روایت یاد آئی اور لوگوں نے تفصیل سمجھائی تو معلوم ہوا کہ ادھر ہی ہے، دیکھنے میں احساس یہ ہوتا ہے کہ اس پار ہے، ہوسکتا ہے کہ شاہ عبد الشکور کا اشارہ اسی بات کی طرف ہو، و اللہ اعلم۔