سے فیض پہنچا اور ان کی صحبت میں رہ کر ان کو وہ دولت جاوید ہاتھ آئی جو اس سارے مجاہدہ کا مقصود اور حاصل ہے، ’’تذکرۃ الابرار‘‘ کے الفاظ ہیں :
’’بسا مردم از فیض صحبت ایشاں بمقصود اصلی واصل گشتند و از خود و خودی وارستند و بقاء اتم و بقاء اکمل پیوستند۔‘‘
(بکثرت آدمی ان کے فیضِ صحبت سے مقصودِ اصلی تک پہنچے اور خود پرستی و خودی سے آزاد ہو کر بقاء دوام حاصل کی)۔
ان کے خلفاء میں شیخ غلام محمد بن شیخ محمود ہیں ، علومِ ظاہری و باطنی میں عالی مربتہ رکھتے تھے، صحبت میں بڑی قوت اور تاثیر تھی۔
شیخ محمد ولی کاکورویؒ
شیخ محمد ولی کا تذکرہ ’’تذکرۂ مشاہیر کاکوری‘‘ میں موجود ہے اور ان کا تعارف کراتے ہوئے یہ سطریں درج ہیں ، حضرت شاہ علم اللہ ؒ نقشبندی رائے بریلوی سے بیعت تھے، اتباعِ شریعتِ محمدی ﷺ میں بے نظیر عصر گزرے، کبھی خلافِ شریعت امور کے مرتکب نہ ہوئے۔
ان کے حالات و سوانح میں سید شاہ علم اللہؒ کی تعلیم و صحبت کا اثر اتنا نمایاں ہے کہ اگر یہ صراحت نہ بھی ہوتی تب بھی اہلِ نظر اس فرق کو محسوس کرلیتے، وہ احتیاط و تورع، عزیمت و استقامت اور اتباعِ سنت جو سید شاہ علم اللہؒ کی امتیازی شان تھی یہاں بھی جلوہ گر معلوم ہوتی ہے، اور پڑھنے والا صاف محسوس کرتا ہے کہ اتنے تذکروں میں اس تذکرہ کا رنگ ہی کچھ اور ہے، ’’تذکرہ مشاہیر کاکوری‘‘ کے مصنف نے جتنے واقعات لکھے ہیں ، وہ سب یہی رنگ لئے ہوئے ہیں ، یہاں اس قسم کے چند واقعات پیش کئے جاتے ہیں ، اس سے ہمیں سید شاہ علم اللہؒ کی صحبت کی کیمیا اثری اور ان کے طرزِ زندگی اور مسلک دونوں چیزوں کا بخوبی اندازہ ہوگا اور ان اوصاف و کمالات کا