گھوڑے اور خیمہ کے سارے شاہی لوازمات اور سامانِ عشرت جس کا جی چاہے لے جائے۔(۱)یہ اعلان کرنا تھا کہ تمام لوگ ٹوٹ پڑے اور دیکھتے دیکھتے سارا سامان و اسباب اُٹھ گیا، جب سید ابو محمد کو یہ خبر پہنچی تو ان کو بڑا رنج ہوا، وہ آئے اور بڑی منت سماجت سے اپنے محبوب بھانجہ کو سمجھانے اور اس ارادہ سے باز رہنے کی کوشش کی، سید شاہ علم اللہؒ نے اس کا جو جواب دیا وہ راقمِ سطور کے نزدیک پورے تصوف کا خلاصہ اور ہماری زندگی کی ایسی حقیقت ہے جس کو سمجھے بغیر نہ آدمی اپنے آپ سے واقف ہوسکتا ہے اور نہ اپنے حقیقی محبوب سے روشناس:
’’دلے دارند و محبوبے ندارند‘‘
انھوں نے کہا کہ ماموں جان آپ کا میرے ساتھ جو محبت و شفقت کا برتاؤ ہے اور جو سلوک و صلۂ رحمی آپ فرماتے رہے ہیں شاید اسی لئے میرے اس تغیرِ حال پر آپ کو رنج ہے لیکن میں کیا کروں کہ آدمی کے پہلو میں ایک ہی دل ہوتا ہے اور ہر جگہ اس کے ساتھ رہتا ہے، اس سے دو متضاد کام نہیں لئے جاسکتے؛ {ما جعل اﷲ لرجل من قلبین فی جوفہ} اس کے بعد یہ شعر پڑھا:
از دل بروں کنم غمِ دنیا و آخرت
یا خانہ جائے رخت بود یا سرائے دوست
پھر کہنے لگے کہ اب تو آپ مجھ سے مایوس ہوجائیں اور میری فکر چھوڑدیں ۔
بھائیوں اور دوستوں نے بھی ہر طرح سمجھانے کی کوشش کی لیکن کوئی بات کارگر نہ ہوئی اور وہ اپنے فیصلہ پر قائم رہے۔
مجاہدات کے دو سال
اس کے بعد سید شاہ علم اللہ نے دو سال لشکرگاہ میں گزارے لیکن اس طرح
------------------------------
(۱) ایک روایت ہے کہ سامان و نقد دونوں کی مالیت ملا کر تقریباً ۹؍ لاکھ روپیہ تھی۔(بحوالہ : مہر جہاں تاب)